30 اکتوبر ، 2019
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ویڈیو کیس کے مرکزی کردار ناصر بٹ کی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو دستاویزات کی تصدیق کے احکامات جاری کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جج ویڈیو کیس کے مرکزی ملزم ناصر بٹ کی جانب سے پاکستان ہائی کمیشن لندن کو دستاویزات کی تصدیق کے احکامات جاری کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔
عدالت عالیہ نے ناصر بٹ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ عدالتی یقین دہانی کے باوجود ناصر بٹ عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ اپنے خلاف مقدمے میں ابھی تک شامل تفتیش ہوئے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل میں ناصر بٹ متاثرہ فریق بھی نہیں ہے جب کہ درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ پٹیشنر کو یہاں کے سسٹم پر اعتماد نہیں جس میں عدلیہ بھی شامل ہے۔
عدالت نے درخواست رد کرتے ہوئے کہاکہ درخواست گزار کرمنل کیس میں ایک مفرور ملزم ہے، اس لیے عدالت کے سامنے پیش ہونے تک درخواست نہیں سنی جا سکتی۔
واضح رہے کہ ملزم ناصر بٹ جج ارشد ملک ویڈیو کیس کا مرکزی ملزم اور مقدمے میں مفرور ہے۔
لندن میں موجود (ن) لیگی رہنما ناصر بٹ نے ویڈیوز کے اصلی ہونے کے ثبوت کے لیے برطانیہ کی فرانزک کمپنی سے رجوع کیا تھا جہاں سے رپورٹ آنے کے بعد وہ اسے پاکستانی ہائی کمشین سے تصدیق کرانا چاہتے ہیں تاکہ اسے عدالت میں پیش کیا جاسکے۔
6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو سزا سنانے والے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں مبینہ طور پر یہ بتایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔ اس بنیاد پر مریم نواز نے یہ مطالبہ کیا کہ چونکہ جج نے خود اعتراف کرلیا ہے لہٰذا نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کو کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کیا جائے۔
تاہم جج ارشد ملک نے ویڈیو جاری ہونے کے بعد اگلے روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے اپنے اوپرعائد الزامات کی تردید کی اور مریم نواز کی جانب سے دکھائی جانے والی ویڈیو کو جعلی۔ فرضی اور جھوٹی قرار دیا۔
اس معاملے پر کابینہ اجلاس کے دوران وزیراعظم عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے۔ وزیراعظم کے بیان کے بعد جج ارشد ملک کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم قام چیف جسٹس عامر فاروق سے ملاقات ہوئی، اس کے بعد قائمقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ سے ملاقات کی۔
ان اہم ملاقاتوں کے بعد 12 جولائی 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائمقام چیف جسٹس عامر فاروق نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزرات قانون نے ان کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردیں۔
اس دوران جج ارشد ملک کا ایک بیان حلفی بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے انہیں رشوت کی پیشکش کی۔
جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں بتایا کہ وہ مئی 2019 کو خاندان کے ساتھ عمرے پر گئے، یکم جون کو ناصر بٹ سے مسجد نبویؐ کے باہر ملاقات ہوئی، ناصر بٹ نے وڈیو کا حوالہ دے کر بلیک میل کیا۔
بیان حلفی کے مطابق انہیں (ارشد ملک) کو حسین نواز سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا گیا جس پر انہوں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا، حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، پورے خاندان کو یوکے، کینیڈا یا مرضی کے کسی اور ملک میں سیٹل کرانے کا کہا گیا، بچوں کیلئے ملازمت اور انہیں منافع بخش کاروبار کرانے کی بھی پیشکش کی گئی۔
خیال رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر2 کے جج ارشد ملک اہم کیسز کی سماعت کررہے تھے جن میں سابق صدر آصف زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کیس اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف ریفرنس بھی شامل ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔