غیرجانبدار امپائر پر عمران خان کے یوٹرن

وہ اب زیادہ پرسکون ، پر اعتماد اور محفوظ نظر آ رہے ہیں: فائل فوٹو

کرکٹر عمران خان ہمیشہ غیرجانبدار امپائر کے ساتھ کھیلنے پریقین رکھتے تھے اوریہ وہی شخص تھے جنہوں نے پہلی بار نیوٹرل امپائر کی تجویزدی اور دنیانے اسے تسلیم کیا لیکن بطور وزیر اعظم عمران جنہوں نے ہمیشہ یوٹرن کا دفاع کیا وہ اپنے مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاست میں اپنےامپائر کے ساتھ کھیلنے پر یقین رکھتے ہیں۔

وہ اب زیادہ پرسکون ، پر اعتماد اور محفوظ نظر آ رہے ہیں ، جو ہمارے حلیف اور جنگ کے تجزیہ کار ، کالم نگار ارشاد بھٹی کے ساتھ ان کے حالیہ انٹرویو سے واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

انہیں اپنی حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نظر نہیں آتا ہے۔ انہوں نے کہا حزب اختلاف نے مجھے مزید تین سال تک برداشت کرنا ہے۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ اس طرح کے تاثرات کے حوالے سے سوشل اور مین سٹریم میڈیا میں ہونے والے تمام سازشی نظریات جلد ہی ختم ہوجائیں گے۔

وزیراعظم غیر ملکی فنڈنگ کے معاملے میں زیادہ متوشش نہیں لیکن ان کی حکومت کے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ یقینی طور پرنیا چیف الیکشن کمشنر کسی’’یس مین‘‘کوچاہتے ہیں جب کہ ای سی پی کے دو ممبروں کا معاملہ ابھی بھی جاری ہے۔

عمران کی سیاست زیادہ غیر روایتی رہی کیونکہ ان کی مقبولیت کی بنیاد ان کے مخالفین سے مختلف ہے۔کچھ لوگ ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں ، دوسرے انہیں اب بھی آخری امید کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس اب بھی ثابت کرنے کا وقت باقی ہے۔ آج ان کے پاس امپائر کی بے مثال حمایت حاصل ہے اور اپنے پیش روؤں کے برعکس انہوں نے پہلے دن سے ہی اسی پیج پر کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔

2018کے انتخابات کے دوران انہوں نے شریفوں پر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ انتخابات ہار گئے ہیں کیونکہ پہلی بارایمپائر غیر جانبدارتھے یا دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ نہیں تھے۔

نواز شریف 2017 میں پہلے ہی نااہل ہوچکےتھے اور انھیں سزا بھی مل گئی لیکن مسلم لیگ (ن) پھر بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری اوراگر مسلم لیگ (ق) ، ایم کیو ایم (پاک) ، جنوبی پنجاب محاز اور بی این پی (مینگل) تحریک انصاف کو ووٹ نہ دیتے تو وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کے قابل نہ ہوتی۔

لہذا یہ بات دلچسپ ہے کہ 2018 میں امپائر غیر جانبدار تھے یا ان کا رخ تبدیل کیا گیا۔ لیکن پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) یا مولانا کی طرف سے خاص طور پر 2008 سے 2018 کے درمیان عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو نقصان پہنچانے کے لئے آسان نہیں تھا۔ 30 اکتوبر 2011 کو پی ٹی آئی کےجلسہ عام کے بعد ان کی مقبولیت کا گراف اوپراٹھنا شروع ہوا۔ یہ بھی سچ ہے کہ 2011 تک پی ٹی آئی ایک پارٹی تھی جس نے روایتی طرز سیاست اور سٹیٹس کو کو چیلنج کیا تھا۔

2013 کے انتخابات سے قبل ہی ان کے مشیروں نے انہیں دوسری جماعتوں سے وہ’’الیک ٹیبل‘‘ قبول کرنے کا کہا جو تحریک انصاف میں شمولیت کے خواہاں تھے۔مولاناکے آزادی مارچ سے پہلے بعدمیں اور اب عمران خان کااعتمادبڑھاہے، مسلم لیگ (ق) ، ایم کیو ایم (پاک) ، جی ڈی اے اور بی این پی (مینگل) نے نواز شریف کے معاملے میں حکومت حکومت کی پالیسیوں پرتنقیدکی ہے۔

عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعریف کی اور کہاکہ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسا جمہوری جنرل کبھی نہیں دیکھا۔ جمعرات کو حکومت نے تمام قیاس آرائیاں ختم کردیں اور پی ایم ہاؤس نے جنرل ندیم رضا کی بطور چیئرمین جوائنٹ سٹاف کمیٹی کی تقرری کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا اوریہ بات بھی واضح کردی کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن 19 اگست کو جاری کیا جاچکا ہے۔

عمران نے جنرل باجوہ کی تعریف کرتے ہوئے کہامیں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے تین ماہ کے اندر ہی فیصلہ کیا کہ جنرل باجوہ آرمی چیف رہیں گے۔عمران خان اپنی کرکٹ کے دنوں میں 1993 تک کبھی بھی سیاستدان نہیں بننا چاہتے تھے اور 80 کی دہائی کے اوائل میں جنرل ضیاء الحق کی وزیر کھیل بننے کی پیش کش کو مسترد کردیا تھا۔

مزید خبریں :