سرفروشی کی تمنا کرنے والا نامعلوم شخص

آج کل انقلاب کا فیشن ہے، ایشیا کو سُرخ کرنے کے نعرے لگ رہے ہیں اور لال لال لہرایا جا رہا ہے—فوٹو سوشل میڈیا

آج کل انقلاب کا فیشن ہے، ایشیا کو سُرخ کرنے کے نعرے لگ رہے ہیں، لال لال لہرایا جا رہا ہے، سرفروشی کی تمنا دلوں میں ہے اور ڈھولک کی تھاپ پر موت کے گیت اِس رومانوی انداز میں گائے جا رہے ہیں کہ بھگت سنگھ کی طرح پھانسی پر جھول جانے کو دل کر رہا ہے۔ 

رسم موقع بھی ہے تو کیوں نہ ایک سچی مچی کے انقلاب کی کہانی دہرا لی جائے! نکولائی چاؤ شسکو ایک انقلابی لیڈر تھا، 1965میں یہ رومانیہ کی کمیونسٹ پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا اور بعد ازاں وزیراعظم۔ 24 برس تک یہ شخص رومانیہ کا بلا شرکت غیرے مالک رہا۔ 

اِس دوران چاؤ شسکو نے ایک دلیرانہ اور آزاد خارجہ پالیسی اپنائی اور سوویت یونین کی رومانیہ پر بالادستی کو ناقابل قبول قرار دیا، یہی نہیں بلکہ وارسا معاہدے سے عملاً علیحدگی اختیار کر لی اور وارسا اتحادی فوجوں کی چیکو سلواکیہ پر حملے اور سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی مذمت کی۔ 

سپر پاور کو آنکھیں دکھانے والے لیڈر سب کو ہی اچھے لگتے ہیں سو چاؤ شسکو نے بھی عوام کی نبض پر درست ہاتھ رکھا اور مقبولیت حاصل کر لی مگر پھر چاؤ شسکو نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے وہی سب کیا جو ڈکٹیٹر کرتے ہیں، اُس نے ایک خفیہ پولیس بنائی جس کا کام مزاحمت کو کچلنا تھا، کسی قسم کی تنقید یا اپوزیشن چاؤ شسکو سے برداشت نہیں ہوتی تھی سو عوام کی بڑے پیمانے پر خفیہ نگرانی کروائی جاتی اور پھر پولیس کی مدد سے مخالفانہ نظریات رکھنے والوں کو ہراساں کیا جاتا اور اگر وہ باز نہ آتے تو جعلی مقدمات بناکر انہیں عقوبت خانوں میں بند کر دیا جاتا۔ 

معیشت کے ساتھ بھی چاؤ شسکو نے ایسا ہی کھلواڑ کیا، بے تُکی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں جب ملک پر قرضوں کا بوجھ حد سے بڑھ گیا تو اسے اتارنے کے لیے 1982ء میں اس نے حکم دیا کہ زیادہ سے زیادہ زرعی اور صنعتی مصنوعات درآمد کی جائیں، نتیجے میں ملک کے اندر خوراک، تیل، ادویات اور بنیادی اشیاء کی شدید قلت ہو گئی اور لوگوں کی روز مرہ زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ پھر وہ ہوا جس کی رومانیہ میں کسی کو امید نہیں تھی۔

رومانیہ کے ایک شہر Timisoaraمیں ایک چھوٹا سا نسلی فساد اچانک بڑھ کر حکومت مخالف مظاہرے میں تبدیل ہو گیا جس پر قابو پانے کیلئے پولیس نے 17دسمبر 1989ء کو گولی چلا دی، جس کے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت کئی لوگ مارے گئے۔ اگلے روز چاؤ شسکو ایران کے دورے پر گیا اور اپنی بیوی اور اعلیٰ حکام کو ذمہ داری سونپ گیا کہ اس کے آنے تک بغاوت کچل دی جائے مگر 20 دسمبر کو اُس کی واپسی تک حالات مزید خراب ہو گئے تو اُس نے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ یہ بیرونی قوتوں کی رومانیہ کو غیر مستحکم کرنے کی سازش ہے، اِس خطاب کا اثر یہ ہوا کہ جن لوگوں کو ذرا برابر بھی اندازہ نہیں تھا کہ حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں، انہیں بھی علم ہو گیا۔

 اگلے روز 21دسمبر کو چاؤ شسکو نے فیصلہ کیا کہ وہ دارالحکومت بخارسٹ کے انقلابی اسکوائر میں عوامی اجتماع سے اپنا کرشماتی خطاب کرے گا۔ کمیونسٹ پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کی بالکونی میں کھڑے ہو کر چاؤ شسکو نے اپنی تقریر شروع کی، ساتھ اُس کی بیوی Elenaتھی اور حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور فوجی حکام۔ ہزاروں لوگ اُس کی تقریر سننے کے لیے جمع تھے، چاؤ شسکو اس سے پہلے درجنوں ایسی تقاریر کر چکا تھا مگر اِس مرتبہ وہ ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

 جونہی اُس کی تقریر کو چند منٹ گزرے، مجمع نے ہوٹنگ کرنا شروع کر دی، چاؤ شسکو کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا، اُس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا، اسے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ وہی رومانیہ ہے جہاں اُس کی مرضی کے بغیر کوئی چوں نہیں کر سکتا تھا اور آج بخارسٹ شہر میں اس کی تقریر کے درمیان لوگ آوازیں نکال کر اس کی تضحیک کر رہے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے! چاؤ شسکو کی یہ تقریر یوٹیوب پر موجود ہے اور لاکھوں مرتبہ دیکھی جا چکی ہے، اُس کے چہرے کے تاثرات ناقابل بیان ہیں، وہ بار بار مائیک میں یوں ہیلو ہیلو کہتا ہے جیسے یہ سب مائیک کا قصور ہو کہ لوگ ہوٹنگ کر رہے ہیں۔

 چاؤ شسکو کی تقریر نہ صرف مشرقی یورپ میں کمیونزم کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی بلکہ خود چاؤ شسکو کے تابوت کا سبب بھی بنی۔ چاؤ شسکو نے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا کہ اصل انقلاب کیسا ہوتا ہے، تقریر کے بعد چاؤ شسکو عمارت کے اندر چلا گیا مگر لوگوں نے بخارسٹ کی سڑکوں پر ہنگامے شروع کر دیے۔

 پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور رات تک سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے روز 22دسمبر کی صبح تک مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے، چاؤ شسکو نے فوج کی سربراہی خود سنبھال لی مگر فائدہ نہ ہوا، عوام کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی دفتر میں داخل ہو گئے، چاؤ شسکو کے محافظ بھی انہیں نہ روک سکے مگر وہ چاؤ شسکو کو نہ پا سکے جو اپنی بیوی کے ساتھ عمارت کی چھت سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہو گیا لیکن یہ طریقہ بھی کام نہ آیا کیونکہ فوج اور پولیس اُس کی حمایت سے ہاتھ اٹھا چکے تھے۔

 25دسمبر 1989ء کو چاؤ شسکو اور اُس کی بیوی کو گرفتار کرکے چھوٹے سے کمرے میں بنائی گئی ایک عدالت میں پیش کیا گیا، اسی وقت ان کے مقدمے کا فیصلہ کرکے انہیں قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا اور گولی مارنے کا حکم سنایا گیا، حکم پر فوری عمل ہوا اور چاؤ شسکو اور اُس کی بیوی کو ایک ساتھ کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا گیا۔

17دسمبر 1989ء سے 25دسمبر تک محض آٹھ دن میں رومانیہ میں جو کچھ ہوا وہ انقلاب کی ایک عظیم داستان ہے، اصل انقلاب وہ نہیں تھا جس کا دعویٰ چاؤ شسکو نے 1965میں کیا تھا، اصل انقلاب وہ تھا جب چاؤ شسکو کی تقریر کے دوران ایک نامعلوم شخص نے اسے للکارنے کی ہمت کی تھی اور چاؤ شسکو لرز کر رہ گیا تھا۔ اُس نامعلوم شخص کے دل میں بھی سرفروشی کی تمنا تھی، آج ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں بھی وہی تمنا ہے!

مزید خبریں :