03 دسمبر ، 2019
قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ میں دائر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کی ضمانتوں کی منسوخی کی درخواستیں واپس لے لیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نیب کی درخواستوں پر سماعت کی۔
نیب کے وکیل نعیم بخاری نے پورے کیس پر بحث کے بعد درخواستیں واپس لیں جس کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے درخواستیں نمٹا دیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب یہ کہہ رہا ہے آشیانہ ہاؤسنگ فراڈ کی وہ کوشش ہے جو نہیں ہوسکا، اس ساری کہانی میں شہباز شریف کا کردار اچھے بچے کا ہے، شہباز شریف نے پہلے انکوائری کرائی پھر معاملہ اینٹی کرپشن کو بھیجا، ابھی تک لگ رہا ہے کہ فود حسن فواد کا کردار برے بچے کا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ چوہدری لطیف کمپنی کو 55 ملین کس نے دیے؟
انہوں نے مزید کہا کہ دوسری بولی دینے والی کمپنی کو فواد حسن فواد کو 55 ملین دے کر کچھ نہیں ملا، نیب کی اس بات نے ہمارا ادراک بڑھادیا ہے، لگتا ہے آشیانہ اسکینڈل میں صرف تخمینے ہی لگائے گئے کہ نقصانات ہو سکتے تھے۔
اس دوران جسٹس منصور شاہ نے سوال کیا کہ فواد حسن فواد نے 55 ملین کامران کیانی سے لےکر بدلے میں کیا دیا؟ اس پر نیب کے وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ کامران کیانی مفرور ہے، اسے فائدہ دینے کا وعدہ کیا گیا، سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہباز شریف تو ساری کہانی میں حفاظتی اقدامات کرتے نظر آ رہے ہیں۔
نیب وکیل نے دلائل میں بتایا کہ شہباز شریف نے بولی کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنائی، بولی سے متعلق شکایت ملنے سے پہلے کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی نے کہاکہ بولی کے عمل میں بعض بے قاعدگیاں ہوئیں، کم ترین بولی دینے والے کا ٹھیکہ کامران کیانی کے کہنے پر منسوخ کیا گیا، کامران کیانی نے فواد حسن فواد کو رشوت دی، پانچ کروڑ سے زائد رقم فواد حسن فواد کے بھائی اور ان کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں گئی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ پیسوں کی منی ٹریل موجود ہے کہ فواد حسن فواد نے پیسے لیے، کامران کیانی کو بھی کنٹریکٹ نہیں مل سکا وہ مفرور ملزم ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ بتائیں معاملہ اینٹی کرپشن میں کس نے بھجوایا؟ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ شہباز شریف نے اینٹی کرپشن کو کیس بھجوایا جس کا مقصد کم ترین بولی دینے والے کو ہراساں کرنا تھا۔
اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے میں بھی پہلے کے مقدمات کی طرح کچھ نہیں، کیا نیب یہ چاہتا ہے کہ لوگ برسوں تک جیلوں میں پڑے رہیں؟
اس دوران نیب وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ شہبازشریف اور فواد حسن فواد سے متعلق درخواستیں واپس لیتا ہوں۔
نیب وکیل نعیم بخاری نے درخواستیں واپس لیتے ہوئے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ نے آشیانہ کیس میں ضمانت دیتے ہوئے کیس کے میرٹ پر آبزرویشن دیں، درخواست ہے کہ میرٹ پر دی جانے والی آبرویشن ٹرائل پر اثر انداز نہ ہوں۔
اس پر معزز عدالت کا کہنا تھا کہ ضمانت منسوخ یا منظور ہونے میں جو آبزرویشن ہوتی ہے وہ عارضی ہوتی ہیں، نیب کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں کچھ پیراز ٹرائل پر اثرانداز ہورہے ہیں اور نیب سپریم کورٹ سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 کو حذف کروانا چاہتی ہے۔
نعیم بخاری نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لطیف اینڈ سنز کو 5.9 ملین روپے بڈنگ سے باہر رہنے کے لیے دیے، اس منصوبے سے حکومت کا 20 ملین کا فائدہ ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نیب نے ریفرنس میں لکھاکہ 2 ہزار کینال کا فائدہ ہوا اور 20 ملین کا نقصان۔
اس پر نعیم بخاری نے کہا کہ 6 ہزار ایک سو درخواستیں آئیں ان تمام لوگوں کا بھی نقصان ہوا، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا صرف یہ الزام ہے نیب کا؟
اس کے جواب میں نیب وکیل نے مزید دلائل دیے کہ احد خان چیمہ نے 100 کینال زمین پیراگون سٹی میں لی، شہباز شریف نے ماڈل ٹاؤن میں اپنے گھر میں میٹنگ کی، میٹنگ میں طے ہوا کہ پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے پروجیکٹ مکمل کیا جائے، اپنے گھر میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی غیر موجودگی میں میٹنگ کیسے کی جا سکتی ہے؟
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف منسٹر ہی ایل ڈی اے کا چیئرمین تھا، میٹنگ میں صرف پرپوزل تیار کیے گئے۔
اس دوران نیب وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ شہباز شریف آج عدالت میں ہیں نہ ملک میں، اس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا شہباز شریف کو ذاتی حیثیت میں بلایا گیا تھا؟ جس کے جواب میں نیب وکیل نے کہا کہ بلایا نہیں گیا تھا لیکن عدالتی فیصلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
اس دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور نیب وکیل نعیم بخاری کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ نے عدالتوں کو کافی مصروف رکھا، اس کے جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ آشیانہ تو بنا ہی نہیں۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آشیانہ بنا نہیں لیکن وکلاء کا کافی کچھ بن گیا۔
نعیم بخاری نے مزید دلائل دیے کہ کیس میں 2 وعدہ معاف گواہوں کی درخواستیں منظور، 2 کی مسترد ہوئیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے اپنا جرم تسلیم کرنا لازم ہے۔
عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 کو حذف کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا۔
یاد رہے کہ رواں سال 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اور رمضان شوگر مل کیس میں ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس ملک شہزاد احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اس حوالے سے کیس کی سماعت کی تھی اور شہباز شریف کی آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم اور رمضان شوگر مل کیس میں اور فواد حسن فواد کی صرف آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم میں ضمانت منظور کی تھی۔
عدالت نے شہباز شریف کو 2 کروڑ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
نیب آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم، صاف پانی کیس، اور اربوں روپے کے گھپلوں کی تحقیقات کر رہا ہے، جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت دیگر نامزد ہیں۔
آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ اور سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی ساتھی اور سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف کو لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے سابق ڈی جی فواد حسن فواد کے بیان کے بعد گرفتار کیا گیا۔
اس سے پہلے آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کیس کی آخری پیشی پر شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو آمنے سامنے بٹھایا گیا۔ نیب ذرائع نے دعویٰ کیا کہ اس موقع پر فواد حسن فواد نے کہا تھا کہ 'میاں صاحب آپ نے جیسے کہا میں ویسے کرتا رہا'۔
نیب کے مطابق شہباز شریف پر الزام ہے کہ انھوں نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب آشیانہ اسکیم کے لیے لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پر منسوخ کروا کے پیراگون کی پراکسی کمپنی 'کاسا' کو دلوا دیا۔
نیب کا الزام ہے کہ شہباز شریف نے پنجاب لینڈ ڈیولپمنٹ کمپنی (پی ایل ڈی سی) پر دباؤ ڈال کر آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا اور پھر یہی ٹھیکہ پی ایل ڈی سی کو واپس دلایا جس سے قومی خزانے کو 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔
نیب ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر کنسلٹنسی کانٹریکٹ ایم ایس انجینئر کنسلٹنسی کو 19کروڑ 20 لاکھ روپے میں دیا جبکہ نیسپاک کا تخمینہ 3 کروڑ روپے تھا۔