05 دسمبر ، 2019
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کے سابق مرکزی رہنما عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرانے کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی درخواست منظور کر لی۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی،اس موقع پر گرفتار ملزمان معظم علی، محسن علی اور خالد شمیم کو سخت سیکورٹی میں پیش کیا گیا۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے برطانوی گواہوں کی فہرست جمع کرائی جس میں مقتول عمران فاروق کی اہلیہ شمائلہ سیدہ نذر، برطانوی فنگر پرنٹ ایکسپرٹ، فرانزک ماہرین اورلندن اکیڈمی آف مینجمنٹ سائنسز کے ڈائریکٹرز سمیت دیگر پولیس افسران شامل ہیں۔
ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرانے کی استدعا کرتے ہوئے ایک ماہ کی مہلت بھی طلب کی ، ان کا کہنا تھا کہ موقع آنے پر غیر ضروری گواہوں کو ترک کر دیا جائے گا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرانے کی ایف آئی اے کی درخواست منظور کر لی۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ گواہوں کے بیانات برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کی موجودگی میں ریکارڈ کیے جائیں گے۔
عدالت نے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کو ویڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کرنے کے انتظامات مکمل کرنے کا حکم دیتےہوئے سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی ۔
واضح رہے کہ 50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جاتے ہوئےان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت چاقو کے حملے کے نتیجے میں آنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی۔
ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
اسی سال محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت ہو چکی ہے۔