10 دسمبر ، 2019
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں قطر سے ایل این جی کی درآمد میں وسیع پیمانے پر مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
سال 16-2015 کے دوران قطر سے درآمد کی جانے والی ایل این جی کے معاہدے کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کے مطابق تقریباً 108 ارب روپے کی بے قاعدگیاں سامنے آئی ہیں، ایل این جی کی خریداری اوپن مارکیٹ کی بجائے قطر سے مہنگے داموں کی گئی، ایل این جی پالیسی 2011 اور پیپرا رولز 2007 کی خلاف ورزیاں کی گئیں۔
خصوصی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فروخت کنندگان کی بجائے آر ایل این جی لاگت کی مد میں عام گیس صارفین سے ناجائز طور پر 4 ارب 50 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق جب حکومت پاکستان نے قطر سے روزانہ 400 ملین میٹرک کیوبک فٹ ایل این جی کی 13.9 فیصد برینٹ کی قیمت پر خریداری کا معاہدہ کیا تو اس وقت ٹریڈنگ کمپنیاں عالمی مارکیٹ میں کم نرخوں پر ایل این جی فروخت کر رہی تھیں۔
نرخوں کا تعین کرنے والی حکومتی کمیٹی میں پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) بھی شامل تھی جس نے بعد میں خود نجی حیثیت میں قطر سے 12.85 فیصد سے 11.91 فیصد برینٹ پر سستے داموں ایل این کی خریداری کا معاہدہ کیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کنسلٹنٹ کا انتخاب بھی غیر شفاف طریقے سے کیا گیا جبکہ ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کا لائسنس اینگرو ایلنجی ٹرمینل لمیٹڈ کو ایل این جی پالیسی 2011 میں خامیوں کے باوجود ایوارڈ کیا گیا۔
اسی کمپنی نے ٹرمینل کی مناسب صفائی بھی نہیں کی لیکن اسے ایک ارب 80 کروڑ کی ادائیگی کر دی گئی، کمپنی کو گیسی فکیشن کے لیے سوئی سدرن گیس نے 5 ارب 37 کروڑ روپے کی زائد ادائیگی کی جبکہ ٹرمینل آپریٹر اینگرو ایلنجی کو مہنگے نرخوں کے باعث 33 ارب 62 کروڑ روپے اضافی ادا کیے گئے۔
کیپیسٹی چارجز کی مد میں بھی اس کمپنی کو ایک ارب 45 کروڑ روپے کی رقم غیر منصفانہ طور پر دی گئی، پورٹ قاسم اتھارٹی کو اضافی پورٹ چارجز کی مد میں 3 ارب 21 کروڑ 22 لاکھ روپے کی غلط ادائیگی کی گئی۔
پی ایس او نے انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس کی مد میں حکومت سندھ کو 29 کروڑ 11 لاکھ روپے غیر قانونی طور پر ادا کیے۔
پورٹ قاسم اتھارٹی کو پورٹ چارجز کی مد میں خطے کے مقابلے میں زیادہ چارجز دیے گئے جس سے 3 ارب 21 کروڑ 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا اور یہ بوجھ بھی صارفین پر ڈالا گیا۔
یاد رہے کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اُس وقت وزیر پیٹرولیم تھے اور وہ اس وقت ایل این جی کیس کے معاملے پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست میں ہیں۔
نیب نے شاہد خاقان عباسی کو 18 جولائی کو گرفتار کیا جبکہ 3 دسمبر کو نیب کی جانب سے احتساب عدالت اسلام آباد میں ریفرنس دائر کیا گیا جس میں شاہد خاقان سمیت 7 ملزمان کو نامزد کیا گیا ہے، ان میں مفتاح اسماعیل، عمران الحق، سابق چیئرمین اوگرا سعید احمد خان اور اوگرا کی موجودہ چیئرپرسن عظمیٰ عادل بھی شامل ہیں۔
ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا گیا، فائدہ مارچ 2015 سے ستمبر 2019 تک پہنچایا گیا جبکہ 2029 تک قومی خزانے کو 47 ارب روپے کا نقصان ہوگا۔