11 دسمبر ، 2019
متنازع شہریت بل کے خلاف بھارت میں احتجاج جاری ہے، ریاست تریپورہ میں احتجاج میں شدت آنے پر موبائل انٹرنیٹ اور میسج سروس 48 گھنٹوں کے لیے بند کردی گئی جب کہ آسام کے شہر گوہاٹی میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
بھارتی لوک سبھا (ایوان زیریں) میں بل کی منظوری کے بعد راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں بھی اسے منظور کرلیا گیا ہے اور صدر کے دستخط کے بعد اسے قانون کا درجہ حاصل ہوجائے گا۔
شہریت ترمیمی بل 2019 کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ نے پیش کیا، بل میں بنگلہ دیش، افغانستان، پاکستان کی6 اقلیتی برادریوں کوبھارتی شہریت دینےکی تجویز ہے، بل کے حق میں 125 اور مخالفت میں 105 ووٹ ڈالے گئے۔
بل کے تحت 2015 سے قبل بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندو، بدھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جاسکے گی جب کہ ان ممالک سے آنے والے مسلمانوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی۔
معتصبانہ بل کے خلاف بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں احتجا ج کا سلسلہ جاری ہے، تریپورہ میں مظاہرین نے احتجاج کے دوران کئی دکانوں کو آگ لگادی۔
تریپورہ میں احتجاج میں شدت آنے پر موبائل، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس سروس48 گھنٹوں کے لیے بند کردی گئی ہے۔
آسام سمیت دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں بھی بل کے خلاف غصے کا اظہار کیا جارہا ہے،آسام کے مختلف علاقوں میں مظاہرین نے سڑکوں پر ٹائر جلا کر گاڑیوں کی آمدو رفت بلاک کردی، جب کہ گوہاٹی میں حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے۔
متنازع بل پاس کیے جانے کے خلاف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے 25 ہزار طلبہ نے گزشتہ روز سے بھوک ہڑتال کا اعلان کررکھا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ تعصب پر مبنی بل کا پاس ہونا حکومت کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کے ارادے کا اظہار ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق یونیورسٹی انتظامیہ نے طلبہ کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے کینٹین میں بڑی مقدار میں کھانا بنوایا تھا تاہم طلبا نے وہ کھانا ضرورت مند افراد میں تقسیم کردیا۔
اسلامی تنظیموں، اپوزیشن جماعتوں، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یہ اقدام بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے میں شامل ہے جس کے تحت وہ 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔
گذشتہ روز ایوان میں بل کی پیشی کے موقع پر حیدر آباد سے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی کاپی پھاڑ دی تھی اور مسودہ قانون کو ہٹلر کے قوانین سے بھی زیادہ برا قراردیا تھا۔
اس سے قبل کانگریس رہنما ششی تھرور نے کہا تھا کہ متعصبانہ بل کی منظوری جناح کے نظریے کی جیت اور گاندھی کے نظریے کی ہار ہوگی۔
دوسری جانب بل پر بھارت کو بین الاقوامی سطح پر تنقید کا بھی سامنا ہے۔
امریکی کمیشن برائےعالمی مذہبی آزادی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے امریکا کو بھارتی وزیر داخلہ دیگرقیادت کیخلاف پابندیوں کی تجویز پیش کی ہے۔