Time 12 دسمبر ، 2019
کھیل

اولمپکس میں میڈل جیت سکتا ہوں، حکومت سرپرستی کرے: جوڈوکا شاہ حسین شاہ

پاکستان کے ٹاپ جوڈوکا شاہ حسین شاہ نے ساؤتھ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد اپنی نظریں اولمپکس میں پاکستان کیلئے میدل جیتنے پر جمالی ہیں تاہم ان کا ماننا ہے کہ اولمپکس جیسے ایونٹ میں کوئی بھی کھلاڑی تن تنہا میڈل نہیں جیت سکتا اس کیلئے ہر کسی کو کردار ادا کرنا ہوگا اور سب کو سپورٹ کرنا ہوگی۔

کراچی میں جیو سے گفت گو میں 26 سالہ شاہ حسین شاہ نے کہا کہ وہ فی الحال اولمپکس کیلئے کونٹی نینٹل کوٹہ کی فہرست میں آچکے ہیں، اس فہرست میں پوزیشن برقرار رکھنے کیلئے مئی 2020 تک ایونٹس میں شرکت لازمی ہے۔

انہوں نے براہ راست کوالیفائی کرنے کی خواہش ظاہر کی اور کہا کہ اس کیلئے انہیں اگلے سال یورپ میں کچھ ٹورنامنٹس کھیلنا ہیں جس کیلئے حکومتی سرپرستی ضروری ہے۔

شاہ حسین شاہ ، جو اولمپکس میں میڈل جیتنے والے باکسر حسین شاہ کے بیٹے ہیں، نے حال ہی میں ساؤتھ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتا ، یہ ان گیمز میں ان کا دوسرا میڈل ہے۔

ان کے والد باکسر حسین شاہ ساوتھ ایشین گیمز میں پانچ گولڈ میڈلز جیت چکے ہیں اور اب ان کی خواہش ہے کہ وہ بھی اپنے والد کی طرح پاکستان کیلئے زیادہ سے زیادہ میڈلز جیتیں۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ "اوور کانفیڈنٹ" نہیں ہونا چاہیں گے لیکن وہ یہ ضرور محسوس کرتے ہیں کہ اس بار ان کے میڈلز جیتنے کے چانسز ہیں کیوں کہ وہ ٹاپ ایتھلیٹس کے ساتھ ٹریننگ کررہے ہیں۔

وہ 2016 ریو اولمپکس میں بھی پاکستان کی نمائندگی کرچکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے بہت بہتر ہوچکے ہیں، 2016 میں انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ اولمپکس ہوتے کیا ہیں، وہاں جاکر وہ حیران تھے لیکن وہ تجربہ اور وہ شکست ان کو بہت کچھ سکھا گیا اور اب ان کا کھیل کافی بہتر ہوچکا ہے۔

شاہ حسین ، جو اپنے احباب میں شاہ بابا کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، نے بتایا کہ ٹوکیو میں وہ رات 12 سے صبح 7بجے تک جم میں کام کرتے ہیں اور جو آمد ہوتی ہے وہ اپنی جوڈو کی ٹریننگ پر خرچ کردیتے ہیں ۔

جب ان سے پوچھا کہ اولمپکس میڈل جیتنے کے لیے کیا اقدامات ہونا چاہئے تو انہوں نے کہا کہ یہ کسی کیلئے آسان نہیں کہ وہ اکیلے ہی سب کچھ کرکے میڈلز جیتے، ٹریننگ اور دیگر چیزوں کیلئے سپورٹ درکار ہوتی ہے ۔ ۔حکومت سے لے کر عوام، سبھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو میڈل ملتاہے۔

انہیں اس بات کا شکوہ ہے کہ ان کے والد کی طرح انہیں بھی حکومت سے کچھ خاص سپورٹ نہیں مل رہی لیکن پھر بھی وہ اس بارے میں زیادہ نہیں سوچتے اور ان کا تمام تر فوکس صرف ان کی ٹریننگ پر ہے۔

مزید خبریں :