Time 14 دسمبر ، 2019
پاکستان

کالے کوٹ والے

ایک فرد جذبات کا شکار بھی ہو سکتا ہے اور انتقام میں آکر بھی بہک سکتا ہے لیکن رونے کا مقام یہ ہے کہ سیکڑوں وکلا نے مل کر اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی—فوٹو فائل

وہ طالبان جنہوں نے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستانی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور جواب میں جن کے خلاف ریاست نے اپنی پوری قوت استعمال کی، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور نہ پاکستانی آئین کو مقدس سمجھتے تھے جب کہ ہمارے وکلا صاحبان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، آئین کو ماننے والے ہی نہیں بلکہ اس کی تعبیر و تشریح کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ طالبان، پاکستان کے قانون سے باغی ہیں۔

وہ اسے انگریز کا بنایا ہوا اور اللہ کے قانون سے متصادم کہتے ہیں لیکن ہمارے وکلا اس قانون کو مانتے، پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔ یہ قانون جس میں جج، وکیل، فوجی، پولیس، ڈاکٹر، کلرک اور استاد وغیرہ کے فرائض اور حدود کا تعین کیا گیا ہے اور جس کی رو سے کسی ادارے، فرد یا گروہ کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں، اسی قانون کی وجہ سے ان وکلا کی عزت ہے۔

اسی قانون کے نام پر وہ کھاتے اور کماتے ہیں اور اسی قانون کی وجہ سے خود حساب برابر کرنے کے بجائے مولوی، سیاستدان، صحافی، ڈاکٹر وغیرہ بھاری رقوم خرچ کر کے اپنے تنازعات ان وکلا کے پاس لے جاتے ہیں۔

وکلا کو اس ریاست نے کبھی قانون ہاتھ میں لینے یا غنڈہ گردی کرنے پر نہیں اکسایا لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ طالبان سے ریاست پاکستان نے افغانستان میں یہی کام لیا تھا۔ گویا مجاہدین اور طالبان کو بندوق اٹھانے اور ڈاکٹر نجیب اللہ اور ببرک کارمل جیسے مسلمانوں کو مرتد قرار دے کر مارنے کی ترغیب اسی ریاستِ پاکستان نے دی تھی۔

وکلا کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی اور چونکہ ریاست ان کی شنوائی کے لئے نہیں آئی تھی اس لئے انہوں نے خود حساب برابر کرنا ضروری سمجھا لیکن شکر الحمدللہ کہ ڈاکٹروں کے ہاتھوں وکیل قتل ہوا اور نہ ان کی اولاد۔

اس کے برعکس جب طالبان سے ہم کہتے کہ وہ قانون ہاتھ میں کیوں لیتے ہیں تو وہ کہتے کہ اس ریاست نے امریکہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کیا۔ ہم جب طالبان سے کہتے تھے کہ وہ قانون ہاتھ میں لینے کے بجائے انصاف کے لئے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتے تو وہ کہتے کہ قبائلی علاقے تو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں آتے لیکن وکلا کا ڈاکٹروں کے ساتھ تنازعہ قبائلی علاقے میں نہیں بلکہ پاکستان کے دل لاہور میں چل رہا تھا اور جج ڈاکٹروں کا نہیں بلکہ وکلا کا ہم پیشہ ہوتا ہے۔

ہم طالبان سے کہتے کہ امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ تو جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا لیکن اس میں عام فوجی، عام پولیس والے یا پھر سرکاری ملازم کا کیا قصور ہے جن کو آپ مارتے ہیں تو وہ جواب دیتے کہ یہ لوگ اس حکومت کے سہولت کار ہیں لیکن وکلا کے حملے سے اسپتال میں جو مریض جاں بحق یا متاثر ہوئے وہ تو کسی بھی طرح متعلقہ ڈاکٹروں کے سہولت کار نہیں تھے۔

اس سارے موازنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ طالبان جو کچھ کررہے تھے وہ ٹھیک تھا اور وکلا جو کچھ کر رہے ہیں، غلط ہے۔ فقط یہ سمجھانا مقصود ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے اور خود ہی جج بن کر سزا دینے کے فلسفے کے حوالے سے طالبان اور دہشت گردی کرنے والے وکلا ایک جیسے ہی نہیں بلکہ وکلا زیادہ قابلِ مذمت ہیں کیونکہ انہوں نے جس قانون کو توڑا ہے وہ دن رات اس کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ وکلا کا قانون ہاتھ میں لینا اور پھر اس طریقے سے لینا کہ اس میں بےگناہ انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، بعینہ ایسا ہے کہ جیسے امام صاحب اپنی مسجد کو بدکاری کا اڈہ بنالیں۔

یہ ایسا اقدام ہے کہ جیسے ڈاکٹر خود مریضوں کا علاج کرنے کے بجائے ان کو قتل کرنے لگ جائیں۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے کوئی صحافی خود آزادیٔ اظہار پر پابندی کے لئے کمربستہ ہو جائے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے فوجی جرنیل، دشمن ملک کا آلہ کار بن جائے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ لاہور میں جو کچھ ہوا وہ کسی وکیل کا ذاتی فعل نہیں تھا۔

ایک فرد جذبات کا شکار بھی ہو سکتا ہے اور انتقام میں آکر بھی بہک سکتا ہے لیکن رونے کا مقام یہ ہے کہ سیکڑوں وکلا نے مل کر اس دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ بعض وکلا تنظیموں نے مذمت کرنے اور اپنی صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو نکالنے کے بجائے ان کی حمایت کی۔ مرضی ان کی ہے۔

وہ ووٹ کی خاطر یا پھر وقتی جھتے بندی کی خاطر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کر لیں لیکن ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے بعد ان وکلا کے پاس طالبان کو غلط کہنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔

پھر کل اگر اسی طرح ملک بھر کے اساتذہ یا کوئی اور طبقہ مل کر کسی سے اپنا حساب برابر کرنے لگ جائیں تو ان وکلا کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوگا کہ ان کو غلط کہیں اور نہ قوم یا میڈیا سے توقع کریں کہ ان کا ساتھ دیں۔

اگر آج وکلا یہ کہتے ہیں کہ ایک وکیل پر حملہ تمام وکلا برادری پر حملہ تصور ہوگا تو پھر فوج کو بھی یہ حق دینا ہوگا کہ وہ جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کو پورے ادارے کے خلاف کارروائی تصور کرے۔ یہ عجیب منطق ہے کہ ایک وکیل پر حملہ ہو تو پوری برادری پر حملہ تصور ہوتا ہے لیکن پھر کسی وکیل کا جرم صرف اس کا جرم گردانا جاتا ہے۔

یہاں تو وکلا سے مطالبہ بھی یہ نہیں کہ وہ لاہور کے وکلا کے جرم کو پوری وکلا برادری کا جرم تصور کرے۔ ان سے تو مطالبہ فقط یہ ہے کہ وہ ملزم وکلا کے خلاف قانون کے روبہ عمل آنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔

ہاں جہاں غنڈہ گردی کرنے والے وکلا اور ان کی حمایت کرنے والی تنظیموں کا رویہ قابل مذمت ہے وہاں جسٹس اطہر من اللہ، بیرسٹر اعتزاز احسن اور بابر ستار جیسے جج اور وکلا لائق تحسین ہیں جو اپنے ہم پیشہ لوگوں کے بھرپور دباؤ کے باوجود قانون اور اصولوں کے ساتھ کھڑے ہیں بہت ہو گیا۔

جو لوگ اب بھی دل کے مریضوں کے اسپتال پر حملہ آور ہونے والے اور کئی قیمتی جانوں کو قربان کرنے والے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور بائیکاٹ کروا رہے ہیں، پورے معاشرے کو ان کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔

ملک کو انارکی سے بچانے کا واحد راستہ اب یہ ہے کہ حکومت، ریاستی ادارے اور زندگی کے تمام طبقات مل کر جسٹس اطہر من اللہ، اعتزاز احسن اور بابر ستار جیسے لوگوں کو کاندھوں پر اٹھا کر الٹا قانون شکنوں کا سوشل بائیکاٹ کرلیں تاکہ ہڑتالوں اور بائیکاٹ کی اس بلیک میلنگ سے نجات ملے اور یہ ملک مکمل انارکی کی گود میں جانے سے بچ جائے۔

مزید خبریں :