پولیس افسران کے معاملے پر وفاق اور سندھ میں چپقلش کی اصل وجہ

— فائل فوٹو

سندھ میں پولیس سمیت دیگر اداروں میں سیاسی مداخلت بڑھنے سے افسران و ملازمین پریشان ہیں ۔ ایک طرف پولیس کے محکمے میں تعیناتیوں پر وفاقی اور سندھ حکومت کے ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات بھی جاری ہیں تو دوسری جانب سینئر پولیس افسران نے قانونی طور پر جواب دینا شروع کردیا ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے اجلاس میں آئی جی سندھ کو طلب کرنے پر کلیم امام وزیراعلیٰ سندھ کی صدارت میں اجلاس میں شریک نہ ہوسکے۔ اس معاملے پر وزیراعلی سندھ نے برہمی کا اظہار کیا گیا اور پبلک سیفٹی کمیشن کے اجلاس میں آئی جی سندھ کے خلاف ایک قرارداد پیش کردی ۔

اب صورت حال یہ ہے کہ سندھ کے پولیس افسران کے تبادلوں کا معاملہ تنازع اختیار کرگیا ہے ۔سینئرپولیس افسران خادم حسین ،اعجاز شیخ ، ڈاکٹر رضوان اور اظفرمہیسر کو وفاقی حکومت نے اسٹبلشمنٹ ڈویژن رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ اظفر مہیسر پر الزام یہ عائد ہوا کہ دہشت گردی الزام میں گرفتار یوسف ٹھیلے والے کے وزیراعلیٰ سے ملنے کا بیان ریکارڈ کیسے ہوا ۔ ڈاکٹر رضوان کے شکارپور کی بااثر شخصیات کے جرائم میں ملوث ہونے سے متعلق بیان پر سندھ حکومت نالاں تھی جبکہ اعجاز شیخ ایس ایس پی عمر کوٹ تھے تو تحریک انصاف کے ایم پی اے علیم عادل شیخ پر ایف آئی آر درج کی گئی ۔

پی ٹی آئی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کے کارکنان اور رہنما پر حملہ کیا گیا اور بعد میں ایف آئی آر بھی ان کے خلاف کاٹ دی گئی۔ گورنر سندھ کی جانب سے اس معاملے پر وفاق سے رابطہ کرکے پولیس افسر کی سیاسی جانبداری پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا جس کے بعد تبادلے کے احکامات اسٹبلشمنٹ ڈویژن نے جاری کردیے۔

اس تمام صورت حال میں آئی جی سندھ کلیم امام کو لاعلم رکھا گیا جس پر انہوں نےفورس کمانڈر کی حیثیت سے احتجاج بھی کیا اور اپنے افسران کے تبادلے کی مخالفت اور اس عمل پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ۔ دوسری جانب ایس ایس پی اعجاز شیخ کے تبادلے پر حکومت سندھ کی جانب تحفظات کااظہار کیا گیا اور چیف سیکریٹری سندھ نے فوری طور پر وفاقی حکومت کو احکامات منسوخ کرنے کی درخواست کردی ۔

ایسی صورت حال میں سندھ میں تعینات پولیس اور دیگر محکموں کے افسران میں مایوسی کی لہر پھیل رہی ہے یا تو انہیں سیاسی مقاصد کے لیے کام کرنا ہوگا یا پھر ایمانداری سے فرائض انجام دینے میں رکاوٹوں کا انبار لگے گا۔ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان نے اور ڈی آئی جی خادم حسین رند نے صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن کو خطوط لکھ کر اپنے تحفظات اور ناانصافی پر احتجاج کیا ، جرائم میں بااثر سیاسی شخصیات کے ملوث ہونے اور پولیس کے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کا ذکر کیا ہے اور اس کے باعث پولیس افسران میں مایوسی سے کمیشن کو آگاہ کیا ہے ۔ بیرسٹر مرتضی وہاب نےحکومت سندھ کا مؤقف دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت صوبائی معاملات میں مداخلت کررہی ہے ۔

محکمہ پولیس میں سیاسی مداخلت کی بات کوئی نئی نہیں ہے لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ معاملات سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں خاصی حد تک قابو کیےجاچکے تھے لیکن سندھ میں سرکاری اور پولیس افسران پر سیاسی پشت پناہی کے الزامات ایک مرتبہ پھر سامنے آنے لگےہیں۔کراچی بدامنی کیس میں سابقہ پولیس چیف واجد علی درانی نے یہ بیان دیا تھا کہ پولیس میں سیاسی مداخلت موجود ہے۔

جس پرسپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں پولیس سے سیاسی مداخلت کے خاتمے کے ساتھ کرپشن اور جرائم میں ملوث پولیس افسران و اہلکاروں کے خلاف کاروائی کے احکامات جاری کئے تھے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں حکومت سندھ نے پی ایس پی گروپ کے 18 سینئرپولیس افسران کے خلاف کرپشن اور غیرقانونی بھرتیوں پر کاروائی کے لئے وفاقی حکومت کو خط لکھا گیا جبکہ 400 کے قریب اہلکارو نچلی سطح کے افسران کے خلاف بھی کاروائی کی گئی ۔

سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے اپنے دور میں پولیس کو خاصی حد تک غیرجانبدار اور سیاسی مداخلت سے صاف کرنے کے کام کا آغاز کیا جس میں انہیں خاصے دباؤ اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی مرتبہ سندھ حکومت نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے تبادلے کی درخواست کی لیکن سپریم کورٹ کے احکامات آڑے آگئے۔ سندھ کے دوسرے آئی جی ڈاکٹر کلیم امام کو ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ ان کے محکمے میں سیاسی مداخلت کے ساتھ پیپلز پارٹی کی صوبائی اور تحریک انصاف کی وفاق میں حکومتوں کے درمیان تنازعات کھڑے ہوگئے ہیں اور بحیثیت فورس کمانڈر ان کو جرائم اور کرپشن کے خلاف فورس اور اپنے افسران کا حوصلہ مضبوط کرنے میں دشواری کا سامنا ہے ۔

دوسری جانبدار پولیس کو غیرجانبدار کرنے سے متعلق پولیس ایکٹ کی سفارشات سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت ہے جب کہ سندھ اسمبلی بھی پولیس ایکٹ منظور کرکے اس کا نفاذ کرچکی جس میں آئی جی سندھ کے اختیارات کو محدود کردیا گیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں وفاق اور سندھ کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے پولیس افسران اور بیوروکریسی میں مایوسی کی لہر پیدا ہوگئی ہے جو سندھ میں سرکاری اداروں کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرے گی۔ 

یہ بات سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے حکمناموں میں کئی مرتبہ واضح طور پر کہہ چکی ہے صوبے کی حالت بہتر کرنا ہے تو سرکاری اداروں اور پولیس سے سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ہوگا ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔