17 دسمبر ، 2019
سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کواسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنادی ہے اور یہ کیس سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط کی بنیاد پر شروع ہوا۔
مشرف کے خلاف کیس کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے گذشتہ دور حکومت میں معاملے کی تحقیقات کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا ۔
سابق وزیراعظم نوازشریف نے جون 2013 میں وزارت داخلہ کو خط لکھا جس کے بعدسابق سیکرٹری داخلہ شاہد خان نے کیس تیار کیا، پھر اس وقت کے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائرکرنے کا باضابطہ اعلان کیا۔
وزارت داخلہ کی ہدایت پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سابق پولیس افسر خالد قریشی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جس نے 16 نومبر2013کو پرویز مشرف پر 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کرنے، ججز کو بند کرنے اور آئین شِکنی کا مقدمہ کرنے کی رپورٹ تیارکی۔
20 نومبر 2013 کو غداری کیس کی سماعت کے لیے 3 ججز پر مشتمل خصوصی عدالت قائم کی گئی اور اسی سال 13 دسمبر کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں پرویزمشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ دائرکیا گیا۔
پرویزمشرف کے خلاف ایف آئی اے کی تحقیقات کے دوران سابق وفاقی سیکرٹریوں اورحکومتی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سابق گورنرخالد مقبول کے بیانات بھی لیے گئے۔
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت نے 31 مارچ 2014 کو فرد جرم عائدکی، تاہم اس دوران خصوصی عدالت کی کارروائی بار بار معطل کی جاتی رہی کیونکہ سابق صدر سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر عدالت آنے سے گریزاں رہے۔
انہیں ایک بار عدالت آتے ہوئے راستے سے ہی راولپنڈی کے ایک ہسپتال بھی منتقل کیا گیا۔
مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت بھی فراہم کیے گئے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔
بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے اور پھر وطن واپس نہ آنے اور عدالت میں عدم پیشی پر 19 جون 2016 کو انہیں مفرور قرار دیا گیا۔
2013 کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ یہ مقدمہ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے سنا۔
سنگین غداری کیس کی 6 سال میں 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج لگایا گیا۔
عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔
پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے بعد یہ کیس تعطل کا شکار ہوگیا ، ایک ٹی وی انٹرویو میں پرویز مشرف نے اعتراف کیا تھا کہ انہیں بیرون ملک بھجوانے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مدد دی۔
تحریک انصاف کی حکومت آئی تو اس نے پرویز مشرف کے خلاف کارروائی جاری نہ کرنے کا اعلان کردیا اور 30 اکتوبر 2019 کو پرویز مشرف کے خلاف وکیلوں کی سرکاری ٹیم کو بھی ہٹا دیا اور ساتھ ہی ساتھ حکومت نے خصوصی عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کرلیا۔
19 نومبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 28 نومبر کو سنایا جاناتھا۔
خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جسے منظور کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روک دیا۔
فیصلہ رکوانے کے لیے پرویز مشرف کی جانب سے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئیں۔
28 نومبر 2019 کی سماعت میں خصوصی عدالت نے کہا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ماننے کے پابند نہیں ہیں اور سپریم کورٹ کے احکامات ماننے کے پابند ہیں۔
سربراہ خصوصی عدالت جسٹس وقار سیٹھ نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ کے احکامات پر تبصرہ نہیں کریں گے لیکن 5 دسمبر تک موقع دے رہے ہیں، پرویز مشرف اپنا بیان کسی بھی دن ریکارڈ کرا لیں۔
5 دسمبر کی سماعت میں نئے پراسکیوٹر نے عدالت سے کیس کی تیاری کے لیے 15 دنوں کی مہلت طلب کی جس پرخصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 17 دسمبر تک کیس ملتوی کر رہے ہیں،17 دسمبر سے دو دن پہلے تک دلائل تحریری طور پر جمع کرا دیں، اگر کوئی بیمار ہوا یا التواء مانگا گیا تو فیصلہ سنا دیں گے۔
آج 17 دسمبر کو سماعت کے موقع پر اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔
مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے آئین شکنی کے جرائم ثابت ہوئے۔
تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔ نمائندہ جیو نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جج نظر محمد اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔