مشرف کو سزائے موت سنانے والے جج کیخلاف بیانات پر توہین عدالت کی درخواست دائر

پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف بیانات پر پشاور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست جمع کرادی گئی۔

پشاور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق، سابق صدرپرویز مشرف، وزیراعظم عمران خان ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈائریکٹر جنرل انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی آئی ایس پی آر) میجر جنرل آصف غفور، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم،  وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست ملک اجمل خان ایڈووکیٹ نے جمع کرائی ہے، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ فریقین کی جانب سے خصوصی عدالت کے جج پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے اور جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف استعمال کی گئی زبان حد سے تجاوز تھی۔

درخواست گزارنے مؤقف اختیار کیا ہے کہ عدالت فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔

خیال رہے کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی ہیں اور مشرف کیخلاف فیصلہ سنانے کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے صرف ریسلنگ دیکھنے کا شوق ہے۔

پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

خیال رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

19 دسمبر کوخصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت دی جائے۔

خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو بھی قانون کےکٹہرے میں لا نے کا حکم دیا اور فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے جسٹس وقار سیٹھ نے پیرا 66 میں لکھا ہے کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہوجائیں تو لاش کو ڈی چوک پر لاکر 3 دن تک لٹکایا جائے۔

'ملکی دفاع کےساتھ ادارےکے وقارکا دفاع بھی اچھے سے جانتے ہیں'

عدالتی فیصلے کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیخلاف سنایا جانے والا فیصلہ خاص طور پر اس میں استعمال ہونے والے الفاظ انسانیت، مذہب، تہذیب اور کسی بھی اقدار سے بالاتر ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم انشاء اللہ ملک کا بھی، اس کی عزت کا بھی وقار کا بھی اور ادارے کے وقار کا بھی بھرپور دفاع کریں گے‘۔

دوسری جانب پرویز مشرف کیخلاف تفصیلی عدالتی فیصلے کے بعد حکومتی ٹیم نے وفاقی حکومت کا مؤقف پیش کرنے کے لیے پریس کانفرنس کی جس میں وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان ،وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر شریک ہوئے۔

خصوصی عدالت کے جج ان فٹ ہیں، وفاقی وزیر قانون

اس موقع پر وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے جج جسٹس وقار سیٹھ ذہنی طور پر ان فٹ ہیں اور انہوں نے ایسی آبزرویشن دے کر ثابت کیا کہ ذہنی طور پر فٹ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جج ایسی آبزرویشن دیتا ہے تو یہ آئین و قانون کے خلاف ہے، سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس وقار کو کام کرنے فی الفور سے روک دیا جائے۔

پیرا 66 میں قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا، شہزاد اکبر

 وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و امور داخلہ شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلہ پڑھنے کے بعد پیرا 66 کو لےکر میرا سر شرم سے جھک گیا،آپ نے بھی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے، یہ کس طرح کی چیز لکھ دی ہے جس سے جگ ہنسائی ہوئی۔

شہزاد اکبر کا مزیدکہنا تھا کہ خصوصی عدالت کے فیصلے کے پیرا 66 میں تو قانون اور آئین کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے، آپ نے تو بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں ہیں۔

حکومت نے جسٹس وقار سیٹھ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا تاہم اب تک ریفرنس دائر نہیں ہوسکا۔

مزید خبریں :