28 دسمبر ، 2019
لاہور ہائیکورٹ کی یہ آبزرویشن بالکل درست ہے کہ مخالفین سے سیاسی انتقام ہمارے ملک کا کھلا راز ہےالبتہ ہر دور میں سیاسی انتقام کے انداز و اطوار بدل جاتے ہیں۔ پہلے بھینس چوری کے مقدمات سے کام چلالیا جاتا تھا مگر اب سیاسی لوگوں کو ہیروئن اور ایفی ڈرین کے مقدمات میں اُلجھا دیاجاتا ہے۔ یادش بخیر اس سے پہلے مسلم لیگ(ن)کے رہنما حنیف عباسی کو بھی ایفی ڈرین کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی مگر لاہور ہائیکورٹ نے انہیں سنائی گئی سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دورِحکومت میں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت چوہدری ظہور الہٰی کیخلاف بنائے گئے ایک مقدمے میں ضمانت منظور ہوگئی مگر اوپر سے حکم تھا کہ انہیں رہا نہیں کرنا۔ ایس ایچ او نے اپنی نوکری بچانے کے لئے چوہدری ظہورالٰہی کیخلاف بھینس چوری کا مقدمہ درج کرکے ڈیرے پر باندھے گئے جانوروں کو مالِ مسروقہ قرار دیتے ہوئے برآمد کرلیا۔
یہ مقدمہ تب ختم ہوا جب ایف آئی آر میں مدعی بنائے گئے شخص نے لاہور ہائیکورٹ میں جا کر بیان دے دیا کہ نہ تو اس کی کوئی بھینس چوری ہوئی ہے اور ناں ہی اس نے اندراج مقدمہ کی کوئی درخواست دی ہے۔ اسی طرح عراقی سفارتخانے سے اسلحہ برآمد ہوا تو نیب کے رہنماؤں اور چوہدری ظہور الٰہی کو گرفتار کرکے دہشتگرد قرار دیدیا گیا۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ پکڑے گئے غیر ملکی اسلحہ کی کھیپ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو پہنچائی جانی تھی اور یہ سب سیاستدان اس نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔چوہدری ظہور الٰہی کو بھی کوہلو جیل لے جا کر قید کردیا گیا اور چوہدری شجاعت حسین کا دعویٰ ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنے خاص لوگوں کے ذریعے یہ پیغام گورنر بلوچستان نواب اکبر بگٹی کو پہنچایا کہ چوہدری ظہور الہٰی کو پولیس مقابلے میں مار دیا جائے مگر نواب اکبر بگٹی نے اجرتی قاتل بننے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں تب ختم ہوا جب اعلیٰ عدالت نے قرار دیا کہ کوئی ایسا شخص جس کے خلاف پاکستان کے قانون کے تحت کوئی مقدمہ درج ہوا ہو، اسے قبائلی علاقے میں لے جا کر جرگے کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی۔
اسی طرح 90 کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں میں سیاسی مخالفین سے انتقام کی جو روش اپنائی گئی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بالخصوص نوازشریف کے دوسرے دورِحکومت میں احتساب سیل کے چیئرمین نے جو انتقامی کارروائیاں کیں وہ ہماری سیاسی تاریخ پر بدنما داغ ہیں۔ اس دوران آصف زرداری کو بھی رانا ثنااللہ کی طرح منشیات اسمگلنگ کے مقدمے میں پھنسانے کی پوری کوشش کی گئی۔
چوہدری شجاعت حسین نے اپنی سوانح حیات ’’سچ تو یہ ہے ‘‘میں اس حوالے سے ڈالے جا رہے دباؤ کا ذکر تفصیل سے کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ایک روز میں نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس کو اپنے دفتر بلایا اور علیحدہ میٹنگ کی ۔میں نے کہا،اللہ نے ہمیں منصف بنایا ہے ،یہ ایک شخص کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیس سچا ہے یا جھوٹا۔ڈی جی نے جواب دیا کہ کیس تو بالکل جھوٹا ہے اور جس آدمی کے بیان پر یہ کیس دائر کرنے کےلئے کہا جا رہا ہے ،وہ بھی نہایت بدنام ہے۔
یہ سننے کے بعد میں نے ڈی جی سے کہا ،آپ اس کیس کے بارے میں ہماری آج کی میٹنگ کا حوالہ دے کر کیس کے تمام کوائف اور اس پر اپنی دیانت دارانہ رائے تحریری طور پر مجھے بھجوا دیں۔ڈی جی اگلے ہی روز یعنی 19اکتوبر1997ء کو اپنی تحریری رائے کیساتھ کیس کی فائل لے کر آگئے۔ انہوں نے آخری صفحے پر اپنی سمری میں کیس کو اخلاقی اور قانونی طور پر غلط قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ اینٹی نارکوٹکس فورس کے نزدیک یہ کیس بے حد کمزور ہے لہٰذا اس متنازعہ کیس میں نہیں پڑنا چاہئے۔‘‘
اگروزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی چوہدری شجاعت حسین کی طرح ہمت کرتے یا پھر اے این ایف کے موجودہ ڈی جی بھی سابق ڈی جی کی طرح جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈٹ جاتے تو شاید ادارے کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ رانا ثنااللہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور ان کی رہائی میں ان کی اہلیہ نبیلہ رانا نے وہی کردار ادا کیا ہے جس طرح 12اکتوبر1999ء کے بعد نوازشریف کی رہائی کے لئے بیگم کلثوم نواز نے تحریک چلائی تھی۔
رانا ثنااللہ کی گرفتاری پر حسب روایت وزیراعظم عمران خان کو مطعون کیا جا رہا ہے یا پھر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی پر تنقید ہو رہی ہے ۔وزیر مملکت شہریار آفریدی نے تو اس معاملے میں آبیل مجھے مار کے مصداق توپوں کا رُخ ازخود اپنی طرف کیا ہے مگر میرا خیال ہے کہ رانا ثنااللہ جیسے سچے اور کھرے انسان کو پورا سچ بیان کرنا چاہئیے۔
پورا سچ یہ ہے کہ انہیں عمران خان یا شہریارآفریدی نے نہیں بلکہ ان کی اپنی ہی جماعت کی ایک انتہائی اہم شخصیت نے گرفتار کروایا۔بات دراصل یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف کسی صورت علاج کیلئے بیرون ملک جانے پر رضامند نہیں ہو رہے تھے۔ جب بھی انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ،رانا ثنااللہ حائل ہوجاتے اور یہ کوششیں ناکام ہو جاتیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب تک رانا ثنااللہ کو نوازشریف کیساتھ ملنے سے نہیں روکا جاتا، بیرون ملک جانے کا معاملہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتا۔
یوں اس اہم ترین شخصیت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ رانا ثنااللہ کو کسی ایسے مقدمے میں گرفتار کیا جائے کہ وہ فوری طور پر باہر نہ آسکیں۔یوں رانا ثنااللہ کو دھرلیا گیا اور پھر نوازشریف کو بیرون ملک جانے پر رضامند کرلیا گیا ۔مقدمہ ثابت کرنے کی سنجیدہ کوشش اس لئے نہیں کی گئی کہ مقصد رانا ثنااللہ کو سزا دلوانا نہیں بلکہ کچھ عرصہ کیلئے جیل میں رکھنا تھا۔ جب نوازشریف بیرون ملک چلے گئے اور سارے معاملات طے پا گئے تو رانا ثنااللہ کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کردی گئی اور کمزور شواہد کے پیش نظر وہ رہا ہوگئے۔