پاکستان

سیاسی رہنماؤں کی اسیری و رہائی

سیاسی رہنماؤں کی اسیری و رہائی—فوٹو فائل

پاکستان کی تاریخ کے ہر دور میں وزیروں اور مشیروں کو جھوٹ بولتے ہوئے ہم دیکھتے آئے ہیں۔ شہریار آفریدی اگر سچے ہیں تو انہیں رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کیس کے مقدمہ کے فیصلے تک مستعفی نہیں ہونا چاہیے۔

رانا صاحب اچھے ہیں یا برے، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں مگر معاملہ ہے فیصل آباد سے لاہور آتے ہوئے اُن کی کار سے 15 کلو ہیروئن برآمد ہونے کا۔ وفاقی وزیر مملکت نے دعویٰ کیا تھا کہ رانا ثناء اللہ ایک عرصے سے منشیات کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ریکٹ چلا رہے تھے اورقانون نافذ کرنے والے ادارے کافی دنوں سے اُن کی ریکی کر رہی تھے۔

بالآخر انہیں رنگے ہاتھوں منشیات سے بھرے ہوئے نیلے رنگ کے اٹیچی کیس سمیت پکڑ لیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر مملکت اور ان کے ماتحت محکمے کے افسروں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ جب لاہور کے ٹول پلازہ سے نکلنے کے بعد ہیروئن برآمدگی کی کارروائی کی گئی تو اس کی فوٹیج بھی ثبوت کے طور پر بنائی گئی۔غالباً رانا ثناء کے خلاف اس اقدام سے پہلے وزیراعظم صاحب کو بھی کوئی کہانی سنائی گئی ہوگی، ورنہ وہ ایسا نہ کرتے۔ 

دوسری جانب منشیات کے کسی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کی بھی کوئی مثال موجود نہیں ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 15 کلو ہیروئن کا ملزم رہا کیسے ہو گیا؟وفاقی وزیر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم نے رانا ثناء سے برآمد ہونے والا سارا مواد عدالت میں پیش کر دیا تھا، چیف پراسیکیوٹر کہہ رہے ہیں کہ 23 جولائی کو تمام شہادتیں عدالت کو دے دی گئی تھیں، ہمارا سوال یہ ہے کہ عدالت میں جو مواد اور شواہد جمع کرائے گئے اُن کی تفصیل کیا ہے؟

عدالت میں تو صرف ایک شہادت پیش کرنے کی ضرورت تھی اور وہ شہادت تھی کیمرے کی وہ فوٹیج جو ہیروئن برآمدگی کے وقت بنائی گئی اور جس کا اعلان کیا جاتا رہا۔ کئی ذی شعور وزراء کرام نے رانا ثناء کی ضمانت میں ’ڈیل‘ کا تاثر دینے کی کوشش بھی کی ہے جو خود اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔

یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ ضمانتوں کا موسم ہے اور اسی موسم کے باعث رانا ثناء کو بھی ضمانت مل گئی۔ وہ وقت گیا جب مخالفین کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بھی بن جاتا تھا۔ جناب وزیراعظم کو اپنے نادان مشیروں وزیروں سے بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب نیب راولپنڈی نے مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما، پارٹی کے سیکریٹری جنرل اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کو گرفتار کر لیا ہے، اُن پر الزام ہے کہ نارووال سپورٹس سٹی پروجیکٹ میں بےقاعدگیاں پائی گئی ہیں۔

منگل کو انہیں احتساب عدالت میں پیش کر کے تیرہ دن کا ریمانڈ حاصل کیا گیا۔ احتساب کے طے شدہ طریقِ کار کے مطابق اب نوے روز تک وہ وقتاً فوقتاً ریمانڈ پر رہیں گے، اِس دوران اُن سے الزامات کی تفتیش کی جائے گی اور بالآخر کیس نیب عدالت کے سپرد ہو جائے گا، جو یہ فیصلہ کرے گی کہ اُن پر لگنے والے الزامات درست تھے یا غلط؟

اگر نیب الزامات ثابت کرنے میں کامیاب رہا تو اُنہیں قانون کے مطابق سزا ہو جائے گی اور اگر الزامات ثابت نہ ہو سکے اور احسن اقبال اپنا قانونی دفاع کرنے میں کامیاب رہے تو اُنہیں رہائی مل جائے گی۔ احسن اقبال کو جس طرح گرفتار کیا گیا اس پر لوگوں کو حیرت ہے، وہ کوئی فرار نہیں ہو رہے تھے، وہ ایک سے زیادہ بار مُلک سے باہر گئے اور اپنے پروگرام کے مطابق واپس آ گئے۔

اگر وہ اس مقدمے یا گرفتاری سے بچنا چاہتے تو واپسی میں تاخیر کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ نیب اُنہیں اس کیس میں وقتاً فوقتاً طلب کرتی رہی جس میں وہ پیش بھی ہوئے اور سوالات کے جواب بھی دیئے۔ پیر کو بھی وہ نیب میں پیش ہوئے، جہاں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا، عام طور پر نیب گرفتاری کے لئے یہی طریقہ اختیار کرتی ہے۔

تفتیش کے لئے طلب کیا جاتا ہے اور چند گھنٹوں کے سوال جواب کے بعد ملزم کو گرفتاری کا مژدہ سنا دیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے عرصے میں تقریباً تمام سیاستدانوں کی گرفتاریاں اسی طریقے سے عمل میں آئیں، تفتیش کا طویل طریقِ کار اختیار کیا گیا۔

اس وقت وہ بہت سے سیاستدان جو نیب نے اس طرح گرفتار کئے، بالآخر ضمانتوں پر رہا ہو گئے اور نیب انہیں مزید گرفتار رکھنے کے لئے ٹھوس شواہد عدالتوں میں پیش نہ کر سکا چونکہ نیب کے پراسیکیوٹر اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر پاتے، اِس لئے نیب کے اکثر ملزم ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں۔

جن مقدمات میں نیب سیاستدانوں کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوا، اُن میں سابق وزیراعظم نواز شریف کا مقدمہ نمایاں ہے۔ بہرحال اُنہیں قانون کی عدالت میں اپنا مقدمہ محنت سے لڑنا ہوگا۔

اگر وہ اپنا کیس درست طور پر لڑیں گے، تو بہت سے دوسرے سیاستدانوں کی طرح انہیں بھی ریلیف مل جائے گا۔ دوسری جانب این ایل جی کیس میں (ن )لیگی رہنما مفتاح اسماعیل کو بھی ساڑھے 4ماہ تک اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

چند با رسوخ حلقے بتاتے ہیں کہ احسن اقبال کے بعد ہٹ لسٹ پر خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، جاوید لطیف اور رانا تنویر ہیں۔ کالم کے مکمل ہونے تک وزیراعظم عمران خان کا ایک بیان آیا ہے کہ 2020کرپٹ مافیا کے لئے مشکل ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ڈیڑھ سال سے یہ کرپٹ مافیا کہاں چھپا ہوا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :