05 جنوری ، 2020
امریکا کی جانب سے عراق میں ایرانی جنرل کو راکٹ حملے میں ہلاک کرنے کے واقعے کے بعد جہاں دنیا بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے وہیں امریکا میں بھی اس حملے کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عراق میں ایرانی جنرل پر حملے کے خلاف مظاہرہ کیا گیا جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ واشنگٹن کے علاوہ میم فلس، میامی، نیو یارک، سینٹ لوئس اور سان فرانسسکو میں بھی مظاہرے ہوئے جس میں عوام نے ’NowarwithIran’ کے بینر اٹھا رکھے تھے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس نے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں نشانہ بنانے سے متعلق کانگریس کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا نوٹیفکیشن خفیہ ہے اس لیے عوام کے سامنے نہیں لایا جا سکے گا جس پر امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے اس اقدام کو انتہائی غیر معمولی قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف حملے کے جواز، وقت کے چناؤ اور انداز سے متعلق سنجیدہ اور فوری نوعیت کے سوال ہیں جن کے جوابات آنے چاہیں۔
نینسی پلوسی نے کہا کہ ایران کے خلاف فوج استعمال کرنےکی نہ اجازت لی گئی اور نہ ہی کانگریس سے مشاور ت کی گئی۔
صدارتی امیدوار بننے کے ڈیموکریٹ خواہشمند برنی سینڈرز نے ڈیموکریٹ حلیف راو کھنہ کے ساتھ مل کر بل پیش کر دیا ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ کو مجبور کیا جائے گا کہ اگر ایران کے خلاف جنگ ہو تو فنڈنگ کانگریس سے حاصل کرنا لازم ہو گا، دونوں نے کہا کہ کھربوں ڈالرز ایسی جنگ پر خرچ نہیں کیے جا سکتے جن کے ختم ہونے کا آثار تک نظر نہ آئے۔
ترقی پسند تصور کیے جانے والے ڈیموکریٹ برنی سینڈرز نے کہا کہ ان کے اس اقدام کا مقصد پینٹاگان کے ہاتھ باندھنا ہے تاکہ وہ ایران کے خلاف کسی بھی یکطرفہ کارروائی سے باز رہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کے طاقتور ترین فرد برنی سینڈر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹرمپ کو اس اقدام پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ حملے سے قبل کانگریس کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔
اب سابق قومی سلامتی کی مشیر سوسن رائس نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ ٹرمپ کے اقدام نے امریکیوں کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔
سوسن رائس کا کہنا تھا اوباما دور میں جنرل سلیمانی کو ہدف بنانے کی تجویز پیش نہیں کی گئی تھی، جنرل سلیمانی کو مارنے کی تجویز پیش کی گئی ہوتی تو فائدہ اور نقصان جانچتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل سلیمانی کو مارنے سے امریکا کو فائدے سے زیادہ نقصان ہو گا۔
جنرل سلیمانی کی ذمہ داریاں ان کے نائب کو سونپی گئی ہیں۔ القدس فورس کے نئے سربراہ بریگیڈیر جنرل اسماعیل قاآنی زیادہ محتاط سمجھے جاتے ہیں اور خیال ظاہر کیا جا رہا ہےکہ وہ جنرل سلیمانی کی پالیسی کو آگے بڑھائیں گے۔
خیال رہے کہ 3 جنوری کو امریکا نے عراقی دارالحکومت بغداد کے ائیرپورٹ پر راکٹ حملہ کر کے ایران کی القدس فورس ک سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا تھا۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای، صدر حسن روحانی، وزیر خارجہ جواد ظریف اور ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر جنرل غلام علی ابو حمزہ نے امریکا سے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
جنرل قاسم سلیمانی عراقی حکام کی دعوت پر شام سے مسافر طیارے کے ذریعے بغداد پہنچے تھے جہاں اُنھیں جمعے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔