ایک نئے معاہدے کی ضرورت

فوٹو: فائل

ایک صدی پہلے اقبالؒ نے جن مسائل کا تذکرہ کیا تھا دنیا آج بھی انہی کا شکار ہے۔ اقوام عالم کے علاوہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے امت مسلمہ کے بدن کو لاحق جن امراض کا ذکر کیا تھا، ایک صدی گزرنے پر بھی وہ ٹھیک نہیں ہو سکے ہیں بلکہ ان کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

آج پورے عالم اسلام کا جسم لاغر ہے، مسلمان بدن دریدہ ہیں، امت زخموں سے چور ہے۔ سو سال گزر گئے مسلمانوں کے چلن نہیں بدلے۔ سو سال پہلے مسلم عوام کی اکثریت غلام تھی، سو سال بعد مسلم حکمران غلام ہیں۔ افسوس مسلمان ملکوں کے حکمران، مسلمان ملکوں میں نفرت کا کھیل کھیلتے ہیں، استعماری قوتوں کے آلۂ کار بن کر فرقہ پرستی کو ہوا دیتے ہیں، فرقوں کے نام پر قتل و غارت کرواتے ہیں۔

مسلمانوں کے شہروں کے شہر برباد ہوگئے ، ملک کھنڈرات میں بدل گئے، عالم اسلام خون میں نہا گیا، مسلمانوں کی بے بسی پر فضائیں روتی ہیں، ہر طرف آنسو ہیں، بکھرے ہوئے لاشے ہیں، بچوں کی چیخیں ہیں، خاندانوں کے خاندان نڈھال، آسمانوں کو دیکھتے ہیں مگر اس بے بسی کے موسم میں ڈرپوک مسلمان حکمرانوں کے منہ پر قفل لگے ہوئے ہیں۔

کیوں نہیں بولتے جب شام میں گلے کاٹے جاتے ہیں، جب فلسطین میں کلمہ پڑھنے والوں پر موت برسائی جاتی ہے، جب عراق اور افغانستان میں بم گرائے جاتے ہیں، مسلمان حکمران کیوں چپ رہتے ہیں جب لبنان میں زخم بانٹے جاتے ہیں، جب یمن کے باسیوں کا محاصرہ کرکے انہیں موت دینے کی کوشش ہوتی ہے، جب مصر، سوڈان اور ترکی میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش ہوتی ہے، جب لیبیا کو مٹی کا ڈھیر بنایا جاتا ہے، جب پاکستان کو چاروں طرف سے گھیرنے کی کوششیں ہوتی ہیں، مسلمان حکمران کیوں نہیں بولتے بوسنیا کے روتے ہوئے انسانوں پر، کشمیر میں ظلم کی داستانوں پر اور برما میں کٹتی ہوئی گردنوں پر، ایران اور پاکستان پر لگی پابندیوں پر، دشمن اسلام کی بے تکی دھمکیوں پر، اس چپ پہ رونا آتا ہے۔

 مسلمانوں پہ ترس آتا ہے، مسلمان حکمرانوں پر غصہ آتا ہے اور حالات پہ غصہ آتا ہے، گریہ کرتی ہوئی فضائوں میں ماتمی موسم کی بے بسی سے خوف آتا ہے مگر پھر ایک حوصلہ بھی ہے کہ چلو تھوڑے سہی ابھی چند ضمیر زندہ ہیں، وہ امریکیوں کو اڈے دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔

 کچھ وہ بھی ہیں جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، چلو تھوڑے سہی، حق پر تھوڑے ہی ہوتے ہیں ، یہ منظر فرات کی موجوں نے دیکھا تھا۔ پتا نہیں مسلمان حکمرانوں نے اپنے ملکوں میں اقبالؒ کی شاعری کے تراجم کروا کے کیوں نہیں پڑھائے؟ اگر یہ اقبالؒ پڑھاتے تو انہیں دشمن کی چالوں کی سمجھ آ جاتی، پاکستانیوں نے بھی اقبالؒ کی سوچ کو آگے نہیں بڑھایا، انہیں یہ سبق کیوں بھول گیا کہ:

منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی، اللّٰہ بھی، قرآن بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

اقبالؒ کے یہ اشعار دکھوں کی صدا ہیں۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ایک اللّٰہ، ایک نبیؐ اور ایک قرآن کے ماننے والے ایک نہیں ہیں، وہ اپنے نفع و نقصان کو ایک نہیں سمجھتے۔ مسلمان معاشروں میں فرقہ پرستی اس حد تک سرایت کر گئی ہے کہ اگر آپ نبیؐ کے پیاروں کے ناموں پہ نام رکھ دیں تو لوگ آپ کو پتا نہیں کیا سے کیا بنا دیتے ہیں۔

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد حالات نے انگڑائی لی ہے۔ کاش اب ہی مسلمان سمجھ جائیں، خدا نے ان کے وسائل ان کے لیے پیدا کئے ہیں، وہ اپنے وسائل سے خود فائدہ اٹھائیں۔ کاش مسلمان ملک اپنے دشمنوں کو اڈے نہ دیں۔

جنرل قاسم سلیمانی کا قصور کیا تھا، مختصراً غور کر لیجئے۔ یہی اس کا جرم تھا کہ اس نے لبنان، فلسطین اور یمن کے بے بس مسلمانوں کی مدد کی،اس نے تمام مسلمان ملکوں کو فرقہ واریت کی آنکھ سے نہ دیکھا بلکہ اقبالؒ کے اس شعر پر عمل کیا کہ:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

نئے حالات نے مسلمانوں کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ آج انہیں ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ مسلمان ملکوں کو اکٹھا کرے اور ایک معاہدہ کروائے۔

اس معاہدے میں یہ بات شامل ہو کہ کسی بھی مسلمان ملک پر حملہ پورے عالم اسلام پر حملہ تصور کیا جائے گا اور تمام مسلمان ملک نیٹو طرز پر اپنی فوج بناکر دشمن کا صفایا کریں گے۔ نئے معاہدے میں شامل ہو کہ مسلمان ملک اپنے اڈے کسی غیر مسلم ملک کو نہیں دیں گے اور نہ ہی اپنے وسائل پر کسی کو قابض ہونے دیں گے۔

کوئی مسلمان ملک کسی دوسرے مسلمان ملک کے خلاف کسی قسم کی سرگرمی نہیں کرے گا، ہر مسلمان، ہر کلمہ گو مسلمان کا احترام کرے گا، فرقہ پرستی سے گریزاں رہے گا، فرقہ پرستی پھیلانے والوں کو سخت سزا دی جائے گی۔

کوئی ملک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔اسی طرح پوری دنیا کو ایک نئے معاہدے کی ضرورت ہے کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کو امن و انصاف دینے میں ناکام ہو چکی ہے۔ امیر ملک غریب ملکوں کا استحصال کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے ادارے غربت ختم کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

75برسوں میں اقوام متحدہ کی چھتری تلے مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی ہے۔ عالمی امن کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ کی تاریخ کے 243برسوں میں سے 225برس جنگوں میں گزرے ہیں۔ اس نے ملکوں پر جنگیں مسلط کی ہیں۔ اس مرحلے پر مجھے جنرل قاسم سلیمانی کی بات بہت یاد آر ہی ہے کہ ’’ہم دہشت گرد نہیں بلکہ ہم پر دہشت گرد مسلط کیے جاتے ہیں‘‘۔ آخر میں یہی دعا کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

مزید خبریں :