امریکا ایران تنازع اور پاکستان کی حکمتِ عملی

فوٹو: فائل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر گزشتہ دنوں عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایران کے القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور عراق میں ایران کے حامی کمانڈر ابومہدی المہندس کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے جو کسی بھی لمحہ عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔

امریکی حملے میں ایرانی جنرل کی ہلاکت پر ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے اس قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے جبکہ عراقی ملیشیا لیڈر اور سیاستدان مقتدیٰ الصدر نے مہدی آرمی دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوئوں کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے۔

اس طرح اب یہ تنازع صرف ایران اور امریکہ کے درمیان محدود نہیں رہا بلکہ عراق بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں عراقی پارلیمنٹ نے امریکی افواج کے ملک چھوڑنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس کے بعد عراقی وزیراعظم نے امریکہ پر یہ واضح کردیا ہے کہ امریکی افواج کے عراق سے نکلنے کا وقت آچکا ہے۔

ان کے اس بیان نے صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ’’جس دن قاسم سلیمانی کو امریکی حملے کا نشانہ بنایا گیا، اُسی دن ان کی جنرل قاسم سلیمانی سے ملاقات طے تھی اور انہیں اِس لئے مارا گیا کہ وہ عراق کو دیئے گئے ایک سعودی پیغام پر ایران کا ردعمل پہنچانے والے تھے اور وہ سعودی پیغام ہم نے عراق اور خطے میں بڑی پیشرفت پر پہنچنے کیلئے ایران کو پہنچایا تھا‘‘۔

عراقی وزیراعظم کے اس بیان نے امریکی حملے کو مزید متنازع بنادیا ہے۔ عراق کے امریکہ مخالف رویئے پر امریکی صدر ٹرمپ نے عراق کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے امریکی افواج کو نکلنے کو کہا تو امریکہ، عراق پر ایران سے زیادہ سخت پابندیاں لگادے گا۔

جنرل قاسم سلیمانی کو ایران میں خامنہ ای کے بعد ملک کی دوسری بڑی اور اہم شخصیت تصور کیا جاتا تھا۔ وہ ایرانی عوام میں بہت مقبول تھے، اُنہیں ایک ہیرو کا درجہ حاصل تھا۔ جنرل سلیمانی کی نماز جنازہ کے موقع پر جس طرح کے مناظر دیکھنے میں آئے، اُس سے صاف ظاہر ہے کہ ایران سے عراق تک لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

نماز جنازہ کی امامت ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای نے کی جبکہ جنازے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ بھی شریک تھے۔ جنازے میں لاکھوں افراد کی موجودگی سے اس امریکی دعوے کی بھی نفی ہوئی کہ جنرل قاسم سلیمانی ایران میں اتنے زیادہ مقبول نہیں تھے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی ٹوئٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ایران میں لوگ قاسم سلیمانی کی موت سے اتنے غمزدہ اور رنجیدہ نہیں جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

امریکہ، جنرل قاسم سلیمانی کو اپنے اور امریکیوں کیلئے خطرہ تصور کرتا تھا مگر موت کے بعد جنرل سلیمانی، امریکہ کیلئے زیادہ خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کی موت سے پہلے تک ایرانی حکومت شدید دبائو کا شکار تھی، ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بیروزگاری کے خلاف گزشتہ سال نومبر سے ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہرے ہورہے تھے جس میں سینکڑوں مظاہرین مارے گئے اور امریکہ صورتحال کا فائدہ اٹھاکر ایران میں نظام کی تبدیلی کا خواہشمند تھا مگر قاسم سلیمانی کی موت کے بعد ایرانی قوم پہلے سے زیادہ متحد ہوکر ابھری ہے۔

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت اور صدر ٹرمپ کی ایران پر حملے کی دھمکی کے بعد ممکنہ طور پر وسیع پیمانے پر علاقائی جنگ چھڑنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

امریکہ نے خطے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی صورت میں ایران میں 52مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ 52کا ہندسہ ایران میں اُن 52امریکی سفارتکاروں کو ظاہر کرتا ہے جنہیں انقلاب ایران کے بعد امریکی سفارتخانے میں محصور کیا گیا تھا جبکہ ایران نے ردِعمل کے طور پر خطے میں امریکہ کے 290سے زائد مقامات کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا ہے جو ایرانی مسافر طیارے کے اُن 290سنجرز کو ظاہر کرتا ہے جسے امریکہ نے حملہ کرکے مارگرایا تھا۔

اگر امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی جنگ کی صورت اختیار کرتی ہے تو یہ امریکہ کیلئے دوسری جنگوں سے مختلف ہوگی۔ ایران اپنی حمایت یافتہ ملیشیا کے ذریعے عراق، شام اور یمن میں امریکی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ ایران آبنائے ہرمز سے گزرنے والے تیل بردار بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں موجود امریکی افواج بھی ایران کے نشانے پر ہوں گے۔

امریکہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان سے عراق تک ہر جنگ امریکہ کیلئے خسارے کی صورت ثابت ہوئی ہے۔ امریکہ عراق جنگ امریکہ کی ایک بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ امریکہ آج تک بھگت رہا ہے اور اگر موجودہ تنازع جنگ کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کا خمیازہ امریکہ کو کئی عشروں تک بھگتنا پڑے گا۔

ایسی صورتحال میں پاکستان کو سفارتی سطح پر انتہائی محتاط خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی اور کسی دباؤ میں آئے بغیر پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں حکومت اور پاک فوج کا یہ بیان کہ ’’پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا اور خطے کے کسی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا‘‘ خوش آئند ہے کیونکہ ماضی میں وقتی مفاد حاصل کرنے کی پالیسی نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔

مزید خبریں :