دنیا
Time 08 جنوری ، 2020

مشرقِ وسطیٰ، معاملہ فہمی ضروری

ایران کے پاسداران انقلاب امریکا سے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا آغاز کردیا ہے—فوٹو رائٹرز

کرکوک میں امریکیوں پر حملہ اور پھر اُس کے بعد عراق اور شام میں کرتائب حزب اللہ کے کیمپوں پر امریکی بمباری یہ واضح کر رہی تھی کہ صورتحال بہت تیز رفتاری سے خرابی کی جانب رواں دواں ہے لیکن امریکا کی جانب سے جنرل قاسم سلیمانی کو براہِ راست عراق کی سرزمین پر نشانہ بنانا ایک ایسا اقدام ہے کہ جس کے اثرات بہت دیر تک قائم رہیں گے۔

 اس اقدام سے نہ تو امن قائم ہو گا اور نہ ہی ایران جہاں پر اپنے قدم جما چکا ہے وہاں سے واپسی کی راہ لے گا پھر اِس امریکی اقدام کی وجہ کیا صرف یہ ہے کہ ہم اِس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں کہ نظریے کو تقویت پہنچائی جائے، یا کچھ اور بھی مقصود ہے۔ معاملات کے اس حد تک جانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے ادارے کو عراق جنگ کے وقت سے اعلانیہ بےتوقیر کر دیا گیا تھا اور اُن قوانین کی جو بین الاقوامی حیثیت رکھتے ہیں، کی دھجیاں اڑا دی گئی تھیں۔ سنجیدہ حلقوں میں اِس رجحان کی مذمت اور اِس پر تشویش واضح طور پر دیکھنے میں آ رہی تھی اور آ رہی ہے۔ 

جب افغانستان عراق اور لیبیا میں حکومتوں کو فوجی طاقت کے زور پر ختم کر دیا گیا اور یہی طریقہ کار شام میں اختیار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی تو اُس وقت وزیراعظم نوازشریف نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے فوجی طاقت سے قانونی حکومتوں کو گرانے کی مخالفت کی تھی جو اِس بات کی واضح نشاندہی کرتی تھی کہ نہ تو ماضی میں اِس طریقہ کار کو اختیار کرنے کے بعد اُن ممالک کے عوام کے مصائب کا خاتمہ ہوا بلکہ وہ بڑھتے ہی چلے گئے اور نہ ہی مستقبل میں ایسا کرنے سے کوئی مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

 مشرقِ وسطیٰ کی امریکی حکمتِ عملی میں اسرائیل کی سالمیت بلکہ اُس کی علاقائی بالادستی کو قائم کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اسرائیل کو لامحالہ خطرہ جن ممالک سے ہے وہاں پر فرقہ ورانہ جذبات کو اشتعال دینا اور اس کے نتیجے میں رائے عامہ کو اسرائیل کے بجائے ایک دوسرے سے خوفزدہ کرنا پھر صفایا کر ڈالنا اسرائیل کی سالمیت کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کارگر ہتھیار ہے۔

 افسوس صد افسوس کہ وطنِ عزیز میں بھی ایک قابلِ لحاظ تعداد ایران اور عرب ممالک کی کشمکش کو خالصتاً فرقہ ورانہ رنگ میں دیکھتی ہے۔ حالانکہ اِن معاملات میں مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے فرقے ایک ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حقیقی مقاصد اس سے کہیں پرے موجود ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا ردِ عمل کیا ہوگا کیونکہ اِس واقعہ کو بغیر کسی ردِعمل کے چھوڑ دینا ممکن نہیں ہوگا لیکن ایران کے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ اسی نوعیت کی کسی کارروائی میں امریکا کو ایسا ہی نقصان پہنچا سکے۔ 

لازماً ایران کی نگاہیں ایران سے باہر اپنےحلیفوں یعنی حزب اللہ، حماس اور حرکتِ جہادِ اسلامی فلسطین کی جانب اٹھیں گی۔ خیال رہے کہ حماس اور حرکتِ جہادِ اسلامی فلسطین، مصر کی اخوان المسلمین کے نظریات سے متاثر ہو کر قائم کی گئی تھیں۔ باالفاظ دیگر وہ ایران کی ہم مسلک نہیں لیکن اُن کا اور ایران کا سیاسی نظریہ ایک ہے۔ حرکتِ جہادِ اسلامی فلسطین نے جنرل قاسم سلیمانی کے واقعہ پر اپنی ویب سائٹ پر یہ پیغام جاری کیا ہے کہ

"We will march together in the face of this aggression"

غزہ میں اِس تنظیم کو غیر معمولی اثرو رسوخ بھی حاصل ہے۔ اِس تنظیم کو سرایا القدس یا القدس بریگیڈ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ یہ بیان کرتا چلوں کہ کچھ عرصہ قبل عراق کے معروف عالمِ دین مقتدیٰ الصدر کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے بھی خوب چرچے ہوئے تھے۔ ایران کی فلسطین پالیسی اور سعودی ولی عہد کی یہ ملاقات باآسانی سمجھا رہی ہے کہ فرقہ ورانہ کتنے اختلافات ہیں یا صرف فرقوں کو جہاں صرف ضرورت ہو وہاں پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ 

بہرحال ایران، لبنان، عراق، شام، فلسطین اور یمن میں اس حکمتِ عملی کو اختیار کر چکا ہے کہ وہاں پر صرف مسلح گروہ ہی اس کے حامی نہیں بلکہ سیاسی طاقت رکھنے والی قوتیں بھی اس کی حلیف ہیں اور وہ ان دونوں کے اشتراک سے آگے بڑھ رہا ہے۔ امکان غالب ہے کہ جواب اسرائیل کو دیا جائے گا کیونکہ بحری حالات کو زیادہ دیر تک کشیدہ رکھنا اس کے اپنے مفاد میں بھی نہیں ہوگا لہٰذا سمندر میں کسی بڑے تصادم سے بچنا چاہے گا۔

 اب پاکستان نہ صرف کہ ایران کا ہمسایہ ملک ہے بلکہ ایک مسلمہ فوجی طاقت بھی ہے۔ اِس لئے ہماری حکمتِ عملی ہر درجہ احتیاط اور معاملہ فہمی کا تقاضا کرتی ہے پھر ہماری اپنی حالت بھی اس وقت عجیب سی ہے۔ پاکستان کو خیال رکھنا چاہئے کہ ملائیشیا سمٹ والی غلطیاں نہ دہرائی جائیں ۔ نظر صرف اس پر رکھنا چاہئے کہ ہماری سرحدیں اور بحری راستوں کی کیا صورتحال ہے اور اگر کہیں کچھ غیر معمولی ہو تو اس سے نبٹنا کیسے ہے۔ پرائی آگ میں جلنے سے خود کو محفوظ رکھنا ہی اصل کامیابی ہو گی جیسے یمن کے معاملے میں خود کو محفوظ رکھا تھا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :