11 جنوری ، 2020
دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کے فروغ اور ذرائع مواصلات کی بے پناہ ترقی کی وجہ سے ایک عالمی کلچر اور عالمی زبان کے سامنے آنے کی پیشگوئیاں ہو رہی تھیں لیکن اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ پوری دنیا کو نیو نیشنلزم کی ایک عجیب لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
دنیا بھر میں نیو نیشنلزم کی علمبردار حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ گلوبل ویلیج کے اندر ہر ملک الگ الگ قلعے کا روپ دھارنے لگا جس کے مکین اِس کی دیواریں اونچی سے اونچی بنا کر ناقابلِ عبور بنانے میں لگ گئے۔ برطانیہ یورپ سے اپنا قلعہ الگ کرنے لگا۔ امریکہ میکسیکو کے ساتھ باڑ لگانے لگا۔ امریکیوں کے لئے غیرملکی تارکین بوجھ بننے لگے، برطانیہ کے لئے یورپین جبکہ مودی کے ہندوستان میں غیرہندو بوجھ بننے لگے۔
دو تین عشرے قبل ہمیں بتایا جاتا رہا کہ اسلامی دنیا اور مغرب کی جنگ تہذیبوں کے تصادم کی صورت میں چھڑ گئی ہے لیکن نیو نیشنلزم کی تحریک ایسی ابھری کہ سعودی عرب اور ایران حالتِ جنگ میں آگئے۔ ترک، عربوں کے مقابلے میں آنے لگے اور ملائیشیا نے الگ راہ لے لی۔ نیو نیشنلزم کی سب سے خطرناک شکل نریندر مودی اور بی جے پی کی شکل میں ہمارے پڑوس میں سامنے آئی۔ مودی کا نیو نیشنلزم کشمیر کو ہڑپ کرنے لگا، اقلیتوں کو دبانے لگا اور پڑوسیوں کو دھمکانے لگا۔ عالمی سطح پر ادارے کمزور اور شخصیات طاقتور ہونے لگیں۔ طاقتور شخصیات کی موجودگی کا ایک نقصان یہ ہوا کہ اُن کی موجودگی میں آنے والے کل کے بارے میں پیشگوئی کرنا مشکل ہوگیا۔
آج ڈونلڈ ٹرمپ کا کوئی بھی اقدام پوری دنیا کو ہلا سکتا ہے اور اُن کی موجودگی میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کل وہ ایران کے معاملے میں کیا کریں گے۔ اسی طرح محمد بن سلمان کا کوئی بھی فیصلہ پورے مشرقِ وسطیٰ کی پوری سیاست کو بدل سکتا ہے۔ نریندر مودی کا کوئی بھی قدم پورے جنوبی ایشیا کو آگ میں دھکیل سکتا ہے۔
یوں دنیا اِس وقت جتنی بےیقینی کا شکار ہے، شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ عالمی اور پھر بالخصوص جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں جو کنفیوژن آج ہے، پہلے کبھی نہ تھا۔ یوں ہر ملک اپنی اپنی جگہ بےچینی کا شکار ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہنگامی اقدامات اُٹھا رہا ہے۔
مذکورہ بالا بےچینی، بےیقینی یا پھر عالمی اور علاقائی انتشار کے پیشِ نظر پاکستانی ریاست کے محافظین کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر تھا اور شاید حفظِ ماتقدم کے طور پر اُنہوں نے ضروری سمجھا کہ پاکستان میں بھی نیو نیشنلزم کی تحریک برپا کی جائے۔
دوسری طرف اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے باہر کی قوتوں پر ہمارا انحصار حد سے زیادہ ہے۔ چنانچہ نیو نیشنلزم کی اس تحریک کو غیرفطری اور کسی حد تک مصنوعی انداز میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ شاید یہ کوشش پوری نیک نیتی اور حب الوطنی کے جذبے کے تحت کی گئی اور کی جارہی ہے لیکن اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی جماعتیں عوام کی نظروں میں بےوقعت ہونے لگیں۔
اِسی طرح عدلیہ پر بھی اعتماد مجروح ہوا جبکہ میڈیا یکسر بےوقعت ہوگیا۔ جب مختلف طبقات محسوس کریں گے کہ سیاسی جماعتیں حقیقی معنوں میں اُن کی نمائندگی نہیں کر رہیں اور ریاست کےساتھ اُن کے صحیح رابطہ کار کا فریضہ سرانجام نہیں دے رہیں تو عوام اور بالخصوص نوجوان متبادل صورتوں کا سوچیں گے۔ کہیں وہ لسانی بنیادوں پر منظم ہوں گے، کہیں مذہبی، کہیں مسلکی اور کہیں طبقاتی بنیادوں پر۔ اِسی طرح جب عوام کی نظروں میں یہ تصور مزید راسخ ہوگا کہ عدلیہ آزاد نہیں تو ہجوم کے ذریعے موقع پر انصاف کرنے یا پھر جتھا بنا کر اپنا حساب برابر کرنے کا رجحان بڑھے گا۔
میڈیا پر اعتماد اسی طرح مجروح ہوتا رہا تو وقت کے ساتھ ساتھ ہر موبائل فون کیمرہ بنتا جائے گا، ہر شہری رپورٹر بن جائے گا اور ابلاغ کا ذریعہ صرف سوشل میڈیا بن جائے گا جس پر ریاست کا پھر کوئی کنٹرول نہیں ہوگا۔
اس وقت شاید بڑی طمانیت کا اظہار کیا جارہا ہے کہ سب سیاسی جماعتیں قابو میں آگئی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس رفتار سے سیاسی جماعتیں قابو ہورہی ہیں، اس رفتار سے نوجوان قابو سے باہر ہوتے جائیں گے۔ آج کا نوجوان سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر حقیقت سے آگاہ ہے۔ یہ نوجوان عزتِ نفس چاہتے ہیں، قومی معاملات میں شرکت چاہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنی آواز اور ملکی امور میں اپنی آواز کی اہمیت چاہتے ہیں۔ اب جب سیاسی جماعتیں اُن کی جذبات کی ترجمانی نہیں کریں گی تو یہ نوجوان اپنے لئے متبادل راستے تلاش کریں گے۔
کل تک قومی سوچ رکھنے والے نوجوان پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جیسی جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے۔ کسی بھی ایشو پر اِن تین جماعتوں کی قیادت کے اتفاق کی صورت میں ایک عمومی قومی اتفاق رائے جنم لے لیتا لیکن اب جب اِن جماعتوں کی قیادت اپنے پیروکاروں کی نظروں سے گر ے گی تو یہ نوجوان اپنا حق مانگنے اور قومی معاملات میں اپنی آواز شامل کرنے کے لئے کہیں پریشر گروپس بنائیں گے، کہیں نسلی بنیادوں پر متحرک ہوں گے اور کہیں علاقائی بنیادوں پر کیونکہ خاموش اُنہوں نے کسی صورت نہیں ہونا ہے۔ اِسی طرح مذہبی رجحانات کے لوگ جے یو آئی اور جماعت اسلامی وغیرہ کے ساتھ منسلک ہیں لیکن جب مذہبی قیادت پر اعتماد نہیں رہے گا تو کچھ طالبان بنیں گے اور کچھ اپنے الگ الگ جتھے بنالیں گے۔
قوم پرستانہ سوچ رکھنے والے کل تک اے این پی، ایم کیو ایم، بی این پی اور اسی نوع کی دیگر قوم پرست جماعتوں کے ساتھ منسلک تھے۔ اِن جماعتوں کی قیادت کو آن بورڈ لینے سے وہ سب خود بخود ریاست کے ساتھ آن بورڈ ہو جاتے تھے لیکن اب جب قوم پرستانہ سوچ کے حامل نوجوان دیکھیں گے کہ اُن کی لیڈرشپ تو اُن کے حقوق کی جنگ لڑنے کے بجائے اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے تو لامحالہ وہ پی ٹی ایم جیسی تنظیمیں بنائیں گے۔ مختلف یونیورسٹیوں کے اندر پختون کونسل، بلوچ کونسل، پنجابی کونسل اور سرائیکی کونسل جیسی طلبہ تنظیموں کا قیام اس رجحان کا پتا دیتا ہے۔
چنانچہ یہ خطرہ موجود ہے کہ سیاسی جماعتوں کو قابو کرنے پر طمانیت کا اظہارکرنے والی ریاست کو کہیں ایسی ہزاروں جماعتوں سے پالا نہ پڑ جائے کہ جن کے لیڈر معلوم ہوں گے اور نہ وہ لیڈر موجودہ سیاسی قائدین کی طرح مصلحت اور مجبوریوں کے شکار ہوں گے۔
سیاسی لیڈر اپنے لئے ہجوم ڈھونڈتے پھرتے ہیں تاکہ اُن کو اپنا ہمنوا بنالیں لیکن حالات جس نہج پر جارہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ اس ملک میں ہر طرف ہجوم لیڈر ڈھونڈتے پھریں گے۔ یوں بھلے ہوں یا برے لیکن سیاسی جماعتوں کو بےوقعت اور سیاسی قیادت کو عوام کی نظروں سے گرانے کا یہ سلسلہ بند ہوجانا چاہئے۔