Time 17 جنوری ، 2020
پاکستان

ایک روشن چراغ تھا، نہ رہا

فوٹو: فائل

آل انڈیا ریڈیو، بی بی سی لندن، این ڈی ٹی وی، دہلی اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ میں خدمات انجام دینے اور اردو زبان کو اپنی ستھری شاعری کی سوغات عطا کرنے کے بعد ہمارے دوست عبید صدیقی 64 برس کی عمر میں چل بسے۔

 دل کا عارضہ تھا اور نہ جانے کب سے تھا، بدن کے اندر جدید ترین آلات نصب تھے جو ان کے ڈاکٹروں کو ان کی کیفیت سے باخبر رکھتے تھے، سب بے اثر ہوئے، ابھی کچھ روز ہوئے، دلّی سے ہمارے دوست قربان علی نے خبر دی کہ رات کے دوران عبید کا انتقال ہوگیا۔

کئی برس ان کا قیام لندن میں رہا، اس سے پہلے وہ سرینگر میں ریڈیو کشمیر سے وابستہ تھے، ریڈیو کی دنیا ان کے لیے نئی نہ تھی، بی بی سی کی ملازمت کے دوران وہ ترقی کی راہ پر چل نکلے تھے اور انہیں اپنی لیاقت، قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر دور تک جانا تھا کہ ایک روز جی میں جانے کیا آئی کہ استعفا دیا اور واپس ہندوستان چلے گئے۔ 

احباب نے سمجھایا، قرابت داروں نے منایا مگر پسپا ہونا انہیں آتا ہی نہ تھا۔ مجھے یاد ہے، ان کے جانے سے پہلے ان کے احباب نے ایک مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی خاص بات یہ تھی کہ مشاعرے میں تنہا عبید پڑھیں گے۔ خدا جانے کیسا سماں بندھا تھا اور لوگوں پر کیا کیفیت طاری تھی، حاضرین نے ان کے ایک ایک مصرعے پر دل کھول کر داد دی اور تعریف و توصیف کا مسلسل اتنا شور ہوتا رہا کہ ایک بار خود عبید نے حیرت کا اظہار کیا۔ یہ شاید ان کے لیے شہر والوں کا الوداعی خراجِ تحسین تھا۔

مشتاق احمد یوسفی اور عبید صدیقی میں یہ بات مشترک تھی کہ دونوں کہا کرتے تھے کہ صاحب وہ لندن کا زمانہ بہت یاد آتا ہے مگر وہ ایک بات جو میں عبید کے منہ سے سننا چاہتا تھا، اسے سننے کے لیے مجھے کئی برس انتظار کرنا پڑا، وہ بات اس تحریر کے آخر تک اٹھا رکھتا ہوں۔

عبید دو مقامات کے تو عاشق تھے، ا یک علی گڑھ اور دوسرا میرٹھ۔ سچ تو یہ ہے کہ میرٹھ کے وہ باشندے تھے۔ ابتدائی تعلیم وہیں پائی اور اسی دوران وہیں حفیظ میرٹھی جیسے شاعر کو استاد کیا۔ اپنے لیے یہ مستحکم بنیاد رکھنے کے بعد جدید دور کے مقبول شاعر شہریار کے مداح ہوتے ہوتے ان کے شاگرد ہوگئے اور پھر جو ان کی شاعری پر شہریار کی چھاپ لگی وہ پختہ سے پختہ ہوتی گئی۔

عبید کے شعر پر غضب کی سادگی کا سایہ تھا اور کوئی مانے یا نہ مانے، انہوں نے یہ ہنر میر تقی میرؔ سے مستعار لیا تھا۔ شہریار سے ان کی قربت بڑھتی گئی اور انہوں نے شہریار پر ایک دستاویزی فلم تیار کرکے دم لیا۔

علی گڑھ میں ان کی ادبی سرگرمیاں اپنے عروج کو پہنچیں۔ مسلم یونیورسٹی میں عبید کا قیام وقار الملک ہال میں تھا جہاں وہ ہال کے میگزین’وقار‘ کے ایڈیٹر ہوئے اور پھر اور آگے بڑھ کر معروف ’علی گڑھ میگزین‘ کی ادارت سنبھالی۔

علی گڑھ میں ان کے دوستوں کا حلقہ بھی مثالی تھا۔ ان میں فرحت احساس، آشفتہ چنگیزی، مہتاب حیدر نقوی اور جاوید حبیب جیسے افراد شامل تھے۔ تعلیم پوری کرکے وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوئے اور سرینگر میں بہت وقت گزارا، اس کے بعد بی بی سی لندن کی ملازمت اختیار کی، اسے چھوڑا تو واپس دلّی جاکر ٹیلی وژن کے مقبول چینل این ڈی ٹی وی میں شامل ہوئے جہاں ان کی ملاقات ہونہار پریزنٹر پرتپال کور سے ہوئی اور دونوں نے شادی کرلی، ان کے ہاں بیٹی ہوئی جو عبید کی واحد نشانی ہے۔

آخر میں وہ جامعہ ملّیہ اسلامیہ کے ماس کمیونیکیشن ریسرچ سینٹر میں پروفیسر کے عہدے پر مامور ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے ای ٹی وی اردو کا بہت مقبول پروگرام ’ہمارے مسائل‘ پیش کیا جو بہت دیکھا جاتا تھا۔ 2010ء میں عبید کا پہلا مجموعہ ’رنگ ہوا میں پھیل رہا ہے‘ شائع ہوا۔

عبید صدیقی نے عجب مزاج پایا تھا، اپنی رائے قائم کرتے تھے تو اس رائے پر ڈٹ کر کھڑے ہوتے تھے، جو لوگ پسند تھے ان سے بہت قریب تھے لیکن جو لوگ اس سے مختلف ہوتے، ان سے فاصلہ رکھتے اور وہ بھی غضب کا فاصلہ، بے حد حسّاس، بہت زود رنج، نازک مزاج اور شکست تسلیم کرنے سے صاف انکار۔

بی بی سی سے خفا ہوئے تو استعفا دے مارا، احباب نے اور گھر والوں نے لاکھ سمجھایا، کسی کی ایک نہ سنی، ساقی فاروقی اور ارشد لطیف سے بہت قریب تھے لیکن اپنی رائے پر ان کو بھی اثر انداز نہیں ہونے دیتے تھے۔

جب نئے نئے لندن آئے تو ارشد لطیف کے ساتھ اپنے لیے مکان تلاش کرنے نکلے۔ انہوں نے مشرقی لندن کے پاکستانی علاقے میں ایک مکان دکھایا جہاں نہاری کی دیگیں کھنک رہی تھیں اور گرم جلیبیاں تلی جارہی تھیں، سخت برہم ہوئے اور بولے کہ اگر یہیں رہنا تھا تو دلّی میں کیا برے تھے۔

کتّے پالنے کا بہت شوق تھا، اور کتّے بھی وہ جنہیں دیکھ کر خوف آئے۔ راٹ وائلر ذات کے کتوں کو دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ’ واہ، کتا ہو تو ایسا ہو‘۔(راٹ وائلر کو خوں خوار کتوں میں شمار کیا جاتا ہے)

میں اسی برس اگست کے مہینے میں دلّی گیا تو عبید نے میری دیکھ بھال اپنے ذمہ لے لی اور سچ تو یہ ہے کہ بہت پیار سے یہ ذمہ داری نبھائی، تپتی ہوئی دھوپ کے باوجود ہمایوں کا مقبرہ دکھانے لے گئے جسے آغا خان نے بالکل ویسا کر دیا ہے جیسے کبھی نیا نیا بنا ہوگا۔

شہر کے سب سے مہنگے ہوٹل میں دلّی کے روایتی دستر خوان والا کھانا کھلایا جہاں میری طلب کا سامان نہ تھا، یعنی دال اور سبزی ہوٹل کی شایانِ شان نہ تھی۔ بہت شرمندہ ہوئے۔

ہم دونوں دیر تک باتیں کیا کرتے، آخر میرے چلنے کا وقت قریب آیا تو عبید نے مجھ سے وہ بات کہی جسے سننے کا میں کب سے آرزو مند تھا۔ بولے: ’عابدی صاحب! بی بی سی کو چھوڑنا میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی‘، انہیں زندگی میں پہلی بار اور یقیناً آخری بار شکست تسلیم کرتے ہوئے دیکھا۔ عبید کا ایک شعر:

ایسا نہیں کہ اس نے لبھایا نہیں مجھے

دنیا پہ اعتبار ہی آیا نہیں مجھے

مزید خبریں :