20 جنوری ، 2020
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ملک میں جاری آٹے کی قلت اور بحران کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا۔
ملک بھر میں آٹے کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور کراچی، حیدرآباد اور لاہور سمیت مختلف شہروں میں فی کلو آٹے کی قیمت 70 روپے تک پہنچ گئی ہے۔
آٹا مہنگا ہونے سے غریب عوام دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے بحران پر جلد قابو پانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف نے گندم اور آٹے کے اربوں روپے کے اسکینڈل کا ذمہ دار وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو قرار دیا ہے۔
لیگی رہنما نے آٹے کی قلت اور بحران کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ گندم، آٹے اور اب چینی کی قیمت میں اضافے کو مسترد کرتے ہیں، 24 گھنٹے سے زائد ہوگئے لیکن وزیراعظم اب تک کوئی حکمت عملی پیش نہیں کرسکے۔
ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی پابندی کے باوجود 25 جولائی سے اکتوبر 2019 تک 48000 میٹرک ٹن گندم کیسے برآمد کی گئی؟ ایک ارب 83 کروڑ روپے کس کی جیب میں گئے؟ وزیر فوڈ سیکیورٹی کا دعویٰ ہے کہ 25 جولائی کے بعد ایک دانہ بھی ملک سے باہر نہیں گیا تو پھر جنات گندم باہر لے گئے؟
انہوں نے کہا کہ گندم پر مال کس کس نے کھایا؟ ایک ایک پائی کا قوم کو حساب دینا ہوگا، گندم کس قیمت پر باہر بھیجی گئی؟ اب کس قیمت پر ملک میں درآمد کی جائے گی؟ آج ایک زرعی ملک کو گندم درآمد کرنا پڑرہی ہے، اس سے زیادہ نالائقی، نااہلی اور شرم کی اور کیا بات ہوگی؟
خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے آٹے کی قیمت میں اضافے کا نوٹس لیا ہے اور آٹے کے بحران سے نمٹنے کیلئے گرینڈ آپریشن کی ہدایت کی ہے تاہم اس کے باوجود آٹا مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے۔