Time 21 جنوری ، 2020
پاکستان

حکومتی فیصلوں میں اہم شخصیت کا کردار اور گندم بحران

اگرچہ حکومت میں سب ہی اہم لوگ جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں خوراک کے تحفظ اور زراعت کے حوالے سے ہونے والے پالیسی فیصلوں میں ایک اہم شخصیت کا کردار ہے لیکن گندم کے اس بحران کا ذمہ دار کون ہے؟

یہ بات کوئی راز نہیں کہ مذکورہ شخصیت، جو پہلے رکن قومی اسمبلی تھے اور جنہیں سپریم کورٹ نے صادق اور امین نہ ہونے پر کوئی بھی سرکاری عہدہ رکھنے کیلئے نا اہل قرار دیا تھا، کی بات کو حکومت کی عموماً گورننس اور سیاسی معاملات اور خصوصاً زرعی امور کے حوالے سے بات زیادہ سنی جاتی ہے۔

اس شخصیت نے پہلے بھی پارٹی کو مالی طور پر سپورٹ کیا اور اس کے روح رواں ہیں، اہم فیصلوں میں حکومت کے قریب ترین سمجھے جاتے ہیں، کسی بھی بحران کی صورت میں مسئلے کے حل کیلئے انہیں ہی بلایا جاتا ہے۔ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ مذکورہ شخصیت اسلام آباد میں وزارت فوڈ سیکورٹی اور پنجاب میں زراعت و محکمہ خوراک کو کنٹرول کرتے ہیں۔

اگرچہ وہ باضابطہ طور پر کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی سیاسی عہدہ یا وزارت نہیں رکھ سکتے، لیکن کسی بھی عہدے کیلئے نا اہل قرار دیے جانے کے باوجود انہوں نے اس وقت تاریخ رقم کی جب انہوں نے 2018ء میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی۔

حکومت کو اس پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن یہ اعلان کیا گیا کہ انہیں زراعت کے امور پر حکومت اور کابینہ ارکان کو بریفنگ دینے کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ وہ زراعت کے امور کے حوالے سے کئی سرکاری اجلاسوں میں شرکت بھی کر چکے ہیں۔

جن کی میڈیا میں بھی کوریج ہو چکی ہے۔ میڈیا بھی اس شخصیت کے خصوصی طور پر گندم کے ایشو پر ہونے والے اجلاسوں کی خصوصی کوریج کر چکا ہے۔ گزشتہ سال مارچ میں میڈیا میں یہ خبر آئی تھی کہ پاکستان افغانستان میں 20؍ لاکھ ٹن کی گندم ایکسپورٹ مارکیٹ کھولنے کیلئے کوششیں کر رہا ہے اور برآمد کنندگان کے مطالبات کے مطابق اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں۔

ایک انگریزی اخبار میں خبر شائع ہوئی تھی کہ ’’یہ اقدام ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب مذکورہ اہم شخصیت نے کے پی کے وزیراعلیٰ محمود خان، ایف بی آر کے سینئر بورڈ ممبران اور سیکورٹی فورسز کے نمائندوں سے ملاقات کی۔

پہلے مرحلے میں طورخم بارڈر سے اشیاء لیجانے والے ٹرکوں کے گزرنے کا وقت 10؍ گھنٹے تک بڑھا دیا گیا ہے اور منصوبہ ہے کہ بارڈر کو برآمدات کیلئے اگست 2019ء تک 24؍ گھنٹے روزانہ کیلئے کھولا جائے۔‘‘

یہ خبر چھپی تھی کہ حکومت نے زرعی مسائل کے حل اور زرعی ترقیاتی اقدامات کرنے کی ذمہ داری اسی مذکورہ اہم شخصیت کو سونپی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ’’گزشتہ چند روز میں مذکورہ شخصیت نے پنجاب، سندھ اور کے پی سے تعلق رکھنے والے گندم کے برآمد کنندگان سے ملاقاتیں کیں جن میں افغانستان کی گندم مارکیٹ میں پاکستان کا 20؍ لاکھ ٹن کی برآمدات کا حصہ بڑھانے کی تجاویز پر غور کیا گیا۔‘‘

اس خبر کیلئے جب اخبار نے رابطہ کیا تو مذکورہ شخصیت کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے کے پی کی سیاسی قیادت اور سیکورٹی سروسز کیساتھ ان تجاویز پر تبادلہ خیال کیا ہے، جس کے بعد پہلے مرحلے میں طورخم بارڈر سے اشیا لیجانے والی گاڑیوں کیلئے وقت 8؍ گھنٹے سے بڑھا کر 10؍ گھنٹے کر دیا گیا ہے۔

ان کے حوالے سے مزید کہا گیا،’’سندھ کے برآمد کنندگان کے مطالبے پر، پنجاب کے مختلف اضلاع سے گندم کے لیب ٹیسٹ کا کام شروع کر دیا گیا ہے تاکہ گندم میں پروٹین اور گلوٹین کا فیصدی حصہ معلوم کیا جا سکے۔ اس کے بعد، ہم ان اضلاع کا انتخاب کریں گے جہاں زیادہ پروٹین اور گلوٹین والا گندم پیدا ہوتا ہے جسے برآمدی مقاصد کیلئے جمع کیا جائے۔‘‘

انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں گندم کی بہت بڑی منڈی ہے جو نہ صرف غیر ملکی زر مبادلہ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے بلکہ اس سے پاکستان کے کسانوں کو زبردست قیمت کے حصول سے فائدہ پہنچے گا اور ساتھ ہی مقامی فلور ملز کو بھی گندم کی اضافی کرشنگ کے نتیجے میں فائدہ ہوگا۔

مئی جون 2019ء میں پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن (پی ایف ایم اے) نے حکومت سے رابطہ کرکے فوری طور پر گندم کی برآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، میڈیا رپورٹس کے مطابق، حکومت نے ملک میں گندم کے موجود ذخائر کی بنیاد پر یہ مطالبہ مسترد کر دیا۔

بعد میں جولائی 2019ء میں حکومت نے بالآخر گندم اور آٹے کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ روٹی اور گندم سے بنی دیگر مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ تھا۔ لیکن اکتوبر 2019ء میں میڈیا میں خبر آئی کہ پاکستان نے دو ماہ بعد جزوی طور پر طورخم کے راستے افغانستان کو آٹے کی برآمد شروع کر دی ہے۔

خبر میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے مقامی سطح پر بڑھتی طلب کے باعث 30؍ جولائی سے گندم اور اس کی مصنوعات کی برآمد پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ جولائی کے آخر تک برآمد کیلئے رکھا گیا گندم کا کوٹہ ختم ہو چکا تھا اسلئے برآمدات روک دی گئی تھیں۔

خبر میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد 24؍ ستمبر 2019ء کو سُوجی، بیکری آئٹمز میں استعمال ہونے والے ریفائن آٹے اور فائن آٹے کی برآمد پر پابندی ہٹا دی ہے، تاہم گندم کے عام آٹے کی برآمد پر پابندی برقرار ہے۔

اسی دوران آٹے کی غیر معمولی راستوں سے افغانستان اسمگلنگ دو ماہ تک جاری رہنے والی برآمدی پابندی کے دوران بڑھ گئی۔ پاکستان میں آٹے کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد، حکومت نے مذکورہ شخصیت اور ایک وفاقی وزیر کو ذمہ داری دی ہے کہ وہ بحران پر قابو پائیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند روز قبل یعنی ای سی سی کی جانب سے بحران کے حل کیلئے اجلاس منعقد کرنے سے قبل۔ یہ مذکورہ اہم شخصیت ہی تھی جس نے میڈیا کو بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے اصولی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ ملک میں گندم کے بحران سے نمٹنے کیلئے 4؍ لاکھ ٹن ڈیوٹی فری گندم درآمد کی جائے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ہیڈکوارٹرز پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس شخصیت نے ہفتے کے دن کہا تھا کہ ’’اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گندم کی درآمد کی باضابطہ منظوری دیدی جائے گی، اجلاس پیر کو ہوگا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ مارچ میں نئی فصل آنے تک گندم کی درآمد کی اجازت دی جائے گی۔

مزید خبریں :