Time 22 جنوری ، 2020
پاکستان

پھر آپ کا اللہ وارث

فوٹو: فائل

دورِ جدید کی لعنتوں میں سے ایک لعنت یہ بھی ہمارے پلے پڑ گئی ہے کہ خود نمائی اور ریٹنگ کے چکر میں تہذیب و اخلاق کی ایسی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں کہ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے عوام میں اپنی ریٹنگ بڑھانے کی علت نے انسان کو ایسا خود غرض بنا دیا ہے۔

وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر سرِعام اپنی گندی بنیان دکھانے سے بھی باز نہیں آتا خصوصاً سوشل میڈیا اور اناڑی ہاتھوں میں چلنے والے الیکٹرونک میڈیا نے اس گندگی کو پھیلانے میں بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔

زبان کی گندگی، طاقت اور عہدے کا غلط استعمال ایسے عناصر ہیں جو ہائیڈروجن بم سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ خود نمائی کی خصلت بنیادی طور پر سماجی اضطراب پیدا کرتی ہے۔

سیدھے سادے الفاظ میں خود نمائی کے شکار لوگ صفر کارکردگی کی بنیاد پر خالی برتن کی طرح کھڑکتے ہیں اور دوسروں کی رائے پر اپنی رائے زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ناپسندیدہ جذبات کو دوسروں پر مسلط کرنا اور یہ سوچے سمجھے بغیر مسلط کرنا کہ اس کے دور رس اثرات کیا مرتب ہوں گے اور اس کا نقصان کتنا ہوگا؟

وہ بدزبانی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب تو صورتحال اس حد تک بھیانک ہو چکی ہے کہ ان بےلگام لوگوں نے سوشل میڈیا سیل کے نام پر کرائے کے قاتل بھرتی کر رکھے ہیں جو سرِعام لوگوں کی صبح و شام عزتیں اچھال رہے ہیں اور سچ کی آواز کو جھوٹ میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن یہ سب کوششیں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ ذہنی مریضوں کا جب تجزیہ کیا جاتا ہے تو ان کی اکثریت اس مرض کا شکار ہوتی ہے کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کے بجائے دوسروں پر الزام تراشی پر اُتر آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُن کا مخالف بھی اُن کے ناقابلِ رشک جذبات کو قبول کرے۔

اِس حوالے سے ایک مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ایسی خواتین جنہیں اپنے شوہروں پر بھروسہ نہیں ہوتا اور شک کرتی ہیں اور اس شک کی بنیاد پر ذہنی مریض بن جاتی ہیں تو جب ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو وہ بڑی آسانی سے کسی مثبت سوال کا جواب دینے کے بجائے یہ الزام لگا دیتی ہیں کہ اُن کا شوہر انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔

اسی طرح کچھ لوگوں کو شاپنگ کے دوران یہ احساس کھائے جاتا ہے کہ کہیں اُن کا پرس یا خریدا ہوا مال چوری نہ ہو جائے۔ خود نمائی کے پیچھے بھی کچھ راز چھپے ہیں۔

خود نمائی ہمیشہ ڈرامائی نہیں ہوتی اُس کی کچھ وجوہات ہوتی ہیں، کچھ ایسے انجانے خوف ہوتے ہیں جس کا اظہار انسان آنے بہانے کرتا رہتا ہے۔ بظاہر خود نمائی کا شکار انسان یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف کا احترام کرتا ہے لیکن اندر سے وہ بغض اور خوف کا شکار ہوتا ہے۔

ظاہری طور پر وہ اتحاد و اتفاق کی بات کرتا ہے باطنی طور پر وہ انتشار و نفاق پیدا کررہا ہوتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ پھر وہ اپنے غلط رویئے کو مانتا ہے نہ اس پر معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔ وہ ہٹ دھرمی کو اپنا دفاعی ہتھیار سمجھتا ہے اور اس ہتھیار کے ذریعے ہی دوسروں کے جذبات و خیالات کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتا ہے اگر وہ اس میں بھی ناکام ہو جائے تو پھر عملی طور پر اپنے مخالف پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔

اس انداز میں اپنا دفاع کرنا ہمیشہ اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ بھونڈے انداز میں اپنا دفاع کررہے ہوتے ہیں تو افواہوں اور بےبنیاد معلومات کا سہارا لیتے ہیں۔

افواہ سازی اور بےبنیاد معلومات سے اپنا دفاع ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ آپ جب افواہوں کا سہارا لیتے ہیں تو دراصل اپنے اندر کے خوف کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بظاہر یہ حرکات کچھ لوگوں کے لیے راحت کا موقع فراہم کرتی ہیں لیکن اس کا انجام ہمیشہ بھیانک ہی ہوتا ہے، جھوٹا اور مکار ہمیشہ پکڑا جاتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات اس کا حل بھی بتاتے ہیں کہ جب آپ پر منفی جذبات کا غلبہ ہونے لگے اور آپ ذہنی انتشار اور انجانے خوف میں مبتلا ہونے لگیں تو بہتر یہی ہے کہ آپ گھر کی صفائی کا کام شروع کردیں اس سے کم از کم عارضی طور پر آپ منفی جذبات کا شکار ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ شگفتہ بیانی اور بدزبانی کا ساتھ ایسے ہی ہے جیسے چولی کا دامن سے۔

چولی کے بغیر دامن نہیں اور دامن کے بغیر عزت نہیں، کہیں دونوں کا ساتھ چھوٹ جائے تو چولی اور دامن دونوں تار تار ہو جاتے ہیں اور جب یہ تار تار ہو جائیں تو انسان کے پلے کچھ نہیں رہتا ماسوائے ذلت و رسوائی کے۔

جب ذلت اور رسوائی آپ کا مقدر بننے لگتی ہے تو آپ کتنے ہی خوش لباس، خوب شکل ہوں اس وقت تک دنیا آپ کے اصل چہرے کو پہچان چکی ہوتی ہے پھر آپ لاکھ جتن کریں پھٹی چولی چاک دامن کبھی دوبارہ رفو نہیں ہو سکتے۔

اگر کوئی اسے رفو کر بھی لے تو بدنامی کے داغ کی طرح یہ نشان بھی ساری زندگی مٹایا نہیں جا سکتا۔ یہ جو رسمِ ذلت و خواری چل نکلی ہے اور جو خوش نما چہرے سردیوں کی شاموں میں بڑی بڑی اسکرینوں پر میک اپ سے نت نئے بہروپ دھارے ذلت و رسوائی کا کاروبار کررہے ہیں اس کا انجام بھی کبھی کسی نے سوچا ہے؟

مجھے تو یہ سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے کہ کائو بوائے نما ہمارے وزیر موصوف فیصل واوڈا نے جو کہانی چلائی ہے اور جس انداز میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے کی بھونڈی کوشش کی ہے یہ ہمارے جدید معاشرے اور نئے پاکستان کی اعلیٰ ترین شکلیں ہیں جو اپنا اصل چہرہ دکھا رہی ہیں۔ اگر آپ اب بھی نہ سمجھیں تو پھر ہمار اور آپ کا اللّٰه وارث۔

مزید خبریں :