25 جنوری ، 2020
اسلام آباد: سرکاری قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے محکمہ خوراک کے اختیارات میں مداخلت کی اور گزشتہ سال گندم کی خریداری کے بعد کئی اضلاع میں سیاسی بنیادوں پر گریڈ 16؍ اور 17؍ سے تعلق رکھنے والے ’’ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز‘‘ کے تبادلے کیے۔
اس بات کو ملک میں گندم کے جاری موجودہ بحران کے حوالے سے پیدا ہونے والی بد انتظامی کی ایک بڑی وجہ سمجھا جا رہا ہے۔
دی نیوز کو دو سرکاری سمریوں کی نقول موصول ہوئی ہیں جو اس وقت کے سیکریٹری خوراک پنجاب ظفر نصر اللّٰہ نے جولائی اور اگست 2019ء میں پیش کی تھیں جن میں فوڈ ڈپارٹمنٹ کے 19؍ افسران کے صوبے کے مخلف اضلاع میں تبادلے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر (ڈی ایف سی) کے تبادلے کا اختیار سیکریٹری فوڈ کے پاس ہوتا ہے لیکن یہ تقرریاں وزیراعلیٰ پنجاب نے کیں۔ ڈی ایف سی کو پورے محکمہ گندم کے آپریشنز کا اہم ترین شخص سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ضلع میں فوڈ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ہوتا ہے۔
ان سمریوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ نے گندم کی خریداری مکمل ہونے کے فوراً بعد ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملات میں زبردست مداخلت کی۔
ان سمریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر ہونے والی پوسٹنگ کیلئے سیکریٹری فوڈ نے تحریری طور پر تصدیق کیلئے سمری بھیجی۔ سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے ایسے احکامات کی تصدیق کی جو ان کے دائرۂ اختیار میں ہی نہیں آتے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر ڈی ایف سیز نے بعد ازاں سرکاری ذخائر سے بلا روک ٹوک اور بے حساب انداز سے گندم کے ذخائر جاری کیے جس کا نتیجہ موجودہ بحران کی صورت میں سامنے آیا۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ تبدیلیاں اس لیے کی گئیں کیونکہ انتہائی پیشہ ور اور ایماندار سیکریٹری نسیم صادق نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا اس لیے انہیں سیکریٹری فوڈ لگائے جانے کے دو ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا گیا۔ ایک ذریعے نے کہا کہ گندم کے بحران کی جڑیں بزدار کے دفتر میں موجود ہیں، فوڈ ڈپارٹمنٹ کے خالصتاً انتظامی معاملات میں وزیراعلیٰ کی غیر قانونی مداخلت کی وجہ سے اس قدر بڑے پیمانے پر بد انتظامی ہوئی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کا عہدہ پرتعیش سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طرز حکمرانی اور سیاسی مداخلت کا عالم یہ ہے کہ راولپنڈی جیسے اہم ترین شہر میں فوڈ ڈپارٹمنٹ کا سربراہ ایک ٹیچر ہے یعنی محکمہ تعلیم کا ملازم۔
ڈی ایف سی کسی بھی شہر میں گندم کے سرکاری ذخائر کے انتظامات دیکھنے والا اہم عہدیدار ہوتا ہے اور اسلئے اسے فلور ملوں کو جاری کردہ گندم کے ذخائر کے انتظامات سنبھالنا ہوتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں گندم کے ذخائر دستیاب رہیں، اس کے علاوہ وہ گندم اور آٹے کی اسمگلنگ روکنے کیلئے اقدامات کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔
ایسی اہم ذمہ داریوں کے ساتھ، ڈی ایف سی کا عہدہ خوراک کے تحفظ کے اقدامات میں انتہائی اہمیت کا حامل بن جاتا ہے۔
11؍ جولائی 2019ء کو ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر (گریڈ 17) اور اسٹوریج افسر (گریڈ 16) کے ٹرانسفر / پوسٹنگ کے احکامات کی تصدیق کیلئے وزیراعلیٰ سے منظوری کی سمری آگے بڑھائی گئی جس میں بہاول نگر، ملتان، راولپنڈی، میانوالی، شیخوپورہ، منڈی بہا الدین، گجرانوالہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور ساہیوال وغیرہ کے مذکورہ افسران کیلئے سی ایم کی منظوری حاصل کی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب صوبے میں گندم کے ذخائر کی خریداری کے بعد اسٹاک جاری کرنے کا وقت ہوتا ہے۔
ان تمام اضلاع میں ڈی ایف سیز اور کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کو انتہائی پر تعیش سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک اور سمری 6؍ اگست 2019ء کو فوڈ سیکریٹری ظفر نصر اللہ نے وزیراعلیٰ سے تصدیق کیلئے بھیجی جس میں جہلم، بہاولپور، بھکر، لیہ، خانیوال اور فیصل آباد میں ڈی ایف سیز کے ٹرانسفر / پوسٹنگز کی بات کی گئی۔
ذرائع کے مطابق، جو طریقہ ان ٹرانسفر / پوسٹنگز کیلئے اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ یہ تبادلے متعلقہ سیکریٹری نے وزیراعلیٰ کے زبانی / ٹیلیفونک کے تحت ہوئے جو ان تک ان کے پرنسپل سیکریٹری نے پہنچائے اور بعد میں سمریوں پر وزیراعلیٰ آفس کی جانب سے تصدیق بھی کی گئی۔ دونوں سمریوں پر وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری، جو سمریوں پر وزیراعلیٰ کے احکامات ریکارڈ کرتے ہیں، نے عثمان بزدار کے یہ احکامات درج کیے:…
’’وزیراعلیٰ نے سمریاں دیکھ لی ہیں اور انتہائی مسرت کے ساتھ انہیں منظور کرتے ہیں۔‘‘ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کی فوڈ ڈپارٹمنٹ کے انتظامی امور میں مداخلت کی باضابطہ تصدیق ہے۔ قواعد کے مطابق ڈی ایف سیز (گریڈ 17؍ کا عہدہ) کی پوسٹنگ / ٹرانسفر کا اختیار سیکریٹری فوڈ کے اختیار میں ہے اور یہ ان ہی کی ذمہ داری ہے۔
لیکن اس کیس میں وزیراعلیٰ نے یہ اختیار چھین کر من پسند افراد کو 12؍ سے زائد اضلاع میں قواعد و ضوابط کا خیال رکھے بغیر مقرر کر دیا۔ ایک سرکاری ذریعے کے مطابق، کچھ وقت کیلئے وزیراعلیٰ نے ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور یہ اپائمنٹ اسی صورتحال کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم، سمری میں کسی طرح کی پابندی کا ذکر ہے اور نہ ہی پابندی ہٹانے کی بات کی گئی ہے، بس اس میں صرف تصدیق کی بات لکھی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے کی گئیں ان متنازع تقرریوں اور تبادلوں کے بعد اس وقت کے سیکریٹری فوڈ نسیم صادق، جو فی الوقت ڈی جی خان میں کمشنر ہیں، کو تقرری کے دو ماہ بعد ہی تبدیل کر دیا گیا۔ صادق اچھی ساکھ کے حامل افسر ہیں اور ان کے ساتھی انہیں نتائج فراہم کرنے والا شخص سمجھتے ہیں اور وہ کوئی نان سینس ٹائپ کے افسر نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فوڈ ڈپارٹمنٹ کے انتظامی امور میں وزیراعلیٰ کی مداخلت قبول نہ کرتے۔ صادق نے تمام ڈی ایف سیز کو میرٹ پر مقرر کیا تھا۔
انہوں نے ایسی فلور ملز کو مشکوک انداز سے فراہم کی گئی گندم کے حوالے سے بھی انکوائری کرائی تھی جن کے متعلق شک تھا کہ وہ گندم پسائی کی بجائے اسمگلروں کو بیچی جا رہی ہے۔ پنجاب حکومت اور فوڈ ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دینے والے ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ مذکورہ افسران کی سیاسی بنیادوں پر تقرری اور بزدار کی جانب سے کیے جانے والے دیگر اقدامات پنجاب اور ملک میں گندم کے بحران کی وجہ ہیں۔
ذریعے نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی بات نے فوڈ ڈپارمنٹ میں کرپٹ اقدامات اور بد انتظامی کی بنیاد رکھی۔
رابطہ کرنے پر پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ پنجاب حکومت میں تمام اقدامات قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد کیے جاتے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار وزیراعظم میرٹ کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تمام اداروں میں شفافیت کے اصولوں کو برقرار رکھا جا رہا ہے اور اداروں میں اصلاحات کیلئے بہترین اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تمام اقدامات اور فیصلے اداروں کی بہتری اور عوامی مفادات کو مد نظر رکھ کر کرتے ہیں۔