کرونا وائرس، احتیاط ہی علاج

فوٹو: فائل

آج کل جس بیماری کا ہر جگہ ذکر ہو رہا ہے وہ چائنیز کرونا وائرس ہے جس کو (2019-nCoV) کا نام دیا گیا ہے، اِس کا مطلب 2019ء میں آنے والا منفرد کرونا وائرس ہے، اِس جراثیم یا وائرس نے تادمِ تحریر 2700لوگوں کو متاثر اور کم و بیش 80 سے زائد افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔

کرونا ایسے جراثیم ہیں جو ویسے تو جانوروں یا پرندوں میں پائے جاتے ہیں لیکن جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو کران کو بھی بیمار کرتے ہیں۔ جب وائرس یا جراثیم اِس تیزی سے پھیلتے ہیں تو اس صورتحال کو آؤٹ بریک (outbreak) کہا جاتا ہے۔

 یہ کرونا وائرس کا پہلا آؤٹ بریک نہیں ہے بلکہ اِس سے پہلے مڈل ایسٹ Respiratoryسینڈروم اور سویئر ایکیوٹ Respiratoryسینڈروم، دو بیماریاں جو پچھلی دو دہائیوں میں خبروں کا مرکز بنی رہیں، بھی کرونا وائرس کی ہی اقسام تھیں۔

 ایک چھوٹے سے جراثیم نے نہ صرف پوری دنیا کو ہائی الرٹ کر دیا ہے بلکہ کئی شہر محصور ہیں، چین میں تقریباً 6کروڑ لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

صرف ایک وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اتنے سخت اقدام کیے جا رہے ہیں کہ چین میں ٹرینوں، سڑکوں اور پروازوں تک کو بند کر دیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ وائرس کرتا کیا ہے؟ 

یہ آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور اِس سے بخار، کھانسی اور سانس میں دِقت جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، وائرس آپ کے جسم میں جانے کے بعد یہ علامات 2سے 14دن میں ظاہر ہوتی ہیں اور یہی بات اِس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں ایک بڑا چیلنج ہے۔

آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں لیکن آپ دوسرے لوگوں تک جراثیم منتقل کر رہے ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایک انسان سے دوسرے انسان تک یہ وائرس کھانسی یا چھینک کے ذریعے یا پانی کے چھوٹے چھوٹے ذروں سے منتقل ہوتا ہے۔

اِس کا کوئی مخصوص علاج نہیں ہے، صرف اِس کی علامات کو مینج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہمارے جسم کی قوتِ مدافعت اِس کو خود ہی وقت کے ساتھ ختم کر دیتی ہے لیکن 25فیصد کیسز میں مریض سیریس بھی ہو جاتے ہیں۔

بالخصوص بوڑھے افراد یا وہ لوگ جو پہلے ہی کسی بیماری میں مبتلا ہوں، کے لیے یہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس کی ویکسین بنانے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے لیکن ایک کامیاب حفاظتی ویکسین بنانے میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

یہ چونکہ ایک نیا وائرس ہے جو پہلے کبھی انسانوں میں نہیں آیا، اس لیے اتنا ہنگامہ مچ چکا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ اِس کے پھیلاؤ کو جلد از جلد کنٹرول کیا جائے۔

احتیاطی تدابیر ہی علاج

ہم سب کے لیے اِس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم حفاظتی تدابیر پر عمل کریں، آپ حیران ہوں گے لیکن اپنے آپ کو اِس وائرس سے بچانے کے لیے کوئی خاص محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بنیادی حفاظتی تدابیر اختیار کرکے ہی ہم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو اِس سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔

 سب سے پہلا اور اہم کام ہاتھوں کو وقتاً فوقتاً دھونا ہے،صابن سے اور کم از کم 20سیکنڈز کے لیے۔ بالخصوص آنکھوں، ناک اور منہ یا ان جگہوں کے قریب ہاتھ لگانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھونے چاہئیں، وائرس سے متاثرہ افراد سے دور رہیں، باہر جاتے ہوئے فیس ماسک کا استعمال کریں اور زیادہ ٹچ ہونے والی پبلک جگہوں کو ہاتھ لگانے کے بعد ہاتھ ضرور دھوئیں۔ اگر کسی بھی قسم کی کوئی بیماری محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

پاکستان میں جیسے وزیراعظم کے مشیرِ صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ اِس وائرس کے ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے، کم از کم 5مریضوں کے بارے یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ چینی ماہرین کے مطابق ہر شخص جس کو یہ وائرس ہوتا ہے، اُس سے یہ وائرس مزید دو سے تین لوگوں تک منتقل ہوتا ہے۔

اِس لیے ہمارے لیے ہر ممکن حد تک احتیاط لازم ہے، ابھی جو مسافروں کی اسکریننگ کا سلسلہ جاری ہے وہ میرے خیال میں ناکافی ہے کیونکہ یہ وائرس 14دن تک کسی بھی شخص میں بیماری کی کسی علامت کے بغیر ایکٹیو رہ سکتا ہے اور اس دوران وہ شخص یہ وائرس دیگر افراد میں منتقل کر سکتا ہے۔

زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اِس طرح کے واقعات ہمارے فرسودہ نظامِ صحت کی بار بار نشاندہی کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی بیماری پھیلتی ہے تو ہماری کوتاہی کی وجہ سے اور ہمارے نظامِ صحت کے ناکافی ہونے کی وجہ سے بیشتر لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 40سے 50فیصد ادویات ناقص اور غیر معیاری ہیں۔ حکومت کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ کرونا کو پاکستان میں پھیلنے سے روکا جائے وگرنہ یہ یہاں پھیل گیا تو ہم اِسے کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔

چین نے 6دن میں 1000بستروں کا اسپتال کھڑا کر دیا ہے اور اسی مہینے میں متاثرہ علاقوں میں 5000 مزید بیڈزکا انتظام کر دیا جائے گا۔ چینی حکومت نے ایک ہفتے کے اندر ہزاروں افراد پر مشتمل میڈیکل اسٹاف تعینات کر دیا ہے، کیا ہم ایسا کرنے کے قابل ہیں؟

جیسے جیسے دنیا بالخصوص پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، صفائی، ہائی جین اور نظامِ صحت کی درستی ہمارے لیے ناگزیر ہوتے جا رہے ہیں، یہ وائرس ہمارے لیے ایک بہت بڑی وارننگ ہے۔ یہ وائرس چین میں شروع ہوا ہے، خدانخواستہ یہ ہمارے ہاں شروع ہوا ہوتا تو خود ہی اندازہ کر لیجئے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہوتے۔

مزید خبریں :