30 جنوری ، 2020
صحافت زرد بھی ہوتی ہے اور غیر ذمہ دارانہ بھی لیکن میڈیا کا اصل کردار عوامی مسائل اور معاشرے و حکومت کی خرابیوں اور خامیوں کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ اُن کو درست کیا جا سکے اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ صحافت حکمرانوں کے لیے آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتی ہے۔
یعنی حکمران جب ایوانِ اقتدار میں درباریوں اور خوشامدیوں میں گھرے ہوتے ہیں تو اکثر و بیشتر اُن کو ’سب اچھا‘ کی رپورٹ ملتی ہے اور اُنہیں کہا جاتا ہے کہ اُن جیسا حکمران تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ ایسے میں میڈیا حکمرانوں کے لیے معاشرے کی تلخ حقیقتیں اور حکومت کی کارکردگی، کرپشن اور خراب حکمرانی جیسے معاملات کو ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ذریعے اجاگر کرتا ہے، جو درباریوں اور خوشامدیوں میں گھرے حکمرانوں کو عموماً ناگوار محسوس ہوتا ہے اور یہ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں بار بار دیکھا ہے۔
شاید ہی کوئی حکمران ایسا گزرا ہو جس کو میڈیا سے شکایت نہ ہو۔ اس لیے اگر وزیراعظم عمران خان جو سیاست میں اپنی کامیابی اور اس کے عروج کے لیے ہمیشہ میڈیا کی تعریف کرتے رہے، اب سب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اخبار پڑھنا بند اور ٹی وی دیکھنا چھوڑ دو۔ خان صاحب کی حکومت کیسے آئی، یہ سب پر واضح ہے لیکن اس کے باوجود ایک پاکستانی شہری اور ایک صحافی ہونے کے ناتے میری خواہش ہے کہ خان صاحب اپنی مدت پوری کریں اور اس قابل ہوں کہ ملک کو جن سنگین معاشی اور گورننس سے متعلق چیلنجز کا سامنا ہے وہ اُ نہیں کامیابی سے حل کر سکیں تاکہ پاکستان ترقی کرے اور عوام خوشحال ہوں۔
حکومت پر تنقید اور خامیوں کی نشاندہی کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ خرابیوں کو دور کیا جائے، اس میں نہ کسی سازش کا عمل دخل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاست۔ گزشتہ سال 13اکتوبر کو میں نے دی نیوز اور جنگ کے لیے ایک خبر دی جو دو بین الاقوامی اداروں ورلڈ اکنامک فورم اور رُول آف لاء کی رپورٹس پر مشتمل تھی اور جن کے مطابق پاکستان میں ماضی کے مقابلے میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔
میری خبر کی ہیڈ لائن تھی ’’?Is Pakistan more corrupt than before‘‘۔ خبر میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان دو بین الاقوامی اداروں کی پاکستان میں کرپشن سے متعلق رپورٹس کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل اپنی 2019ء کی رپورٹ میں شامل کرے گی جس سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ کہیں پاکستان کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ماضی کے مقابلے میں کرپشن میں منفی اسکور دے سکتی ہے۔
اس خبر پر حکومت کی طرف سے جس قسم کا ردعمل آیا وہ میں اپنے اس کالم میں سینسر شپ کی وجہ سے نہیں لکھ سکتا حالانکہ اس بارے میں کچھ تفصیلات میں حال ہی میں ایک ٹی وی ٹاک شو میں بیان کر چکا ہوں، تاہم جنگ گروپ کی کچھ مجبوریاں ہوں گی کہ جب میں نے اس بارے میں اپنے کالم میں کچھ لکھ کر بھیجا تو وہ کالم ہی سینسر ہو گیا اور یہی وجہ تھی کہ سوموار کو جنگ اخبار میں میرا کالم شائع نہیں ہوا۔
خیر! جس خبر پر پیدا ہونے والے ردّعمل پر میں ابھی کچھ لکھ نہیں سکتا، وہ خبر اور اُس خبر میں حکمرانوں اور دوسرے ذمہ داروں کے لیے جس اندیشے کا ذکر تھا وہ چند روز قبل شائع ہونے والی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی خبر میں سو فیصد سچ ثابت ہوا، یعنی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو 2018ء کے مقابلے میں 2019ء میں زیادہ کرپٹ ظاہر کیا۔ نہ صرف پاکستان رینکنگ میں تین درجہ نیچے گر کر 117سے 120ویں نمبر پر پہنچ گیا بلکہ کرپشن کے انڈیکس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں اسکور 33کے بجائے32ہو گیا۔
یہی نہیں 2010ء کے بعد پہلی بار 2019ء میں پاکستان بہتری کے بجائے تنزلی کا شکار ہوا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر صحافت کو حکمران اپنے لیے آنکھ اور کان کے طور پر استعمال کریں گے تو یقیناً اس سے بہتر نتائج نکلیں گے ورنہ اپنی آنکھیں بند کرنے اور کانوں میں انگلیاں دینے سے زمینی حقائق تو نہیں بدلیں گے البتہ حکمرانوں کو ضرور نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ جب وقت گزر جاتا ہے تو پھر جو نقصان ہو چکا ہوتا ہے، اُس کی تلافی ممکن نہیں رہتی۔ تحریک انصاف حکومت کا سب سے بڑا نعرہ کرپشن کے خاتمے کا تھا لیکن ٹرانسپیرنسی رپورٹ نے ثابت کیا کہ یہاں بھی حکومت کو بہت بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)