’زندگی تماشا‘ کی نمائش رکوانے کی درخواست واپس

فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سرمد کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ کی نمائش روکنے کے لیے درخواست دائر کرنے والے شہری نے اپنی درخواست واپس لے لی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے شہری چوہدری قدیر احمد کی جانب سے فلم ’زندگی تماشا‘ پر پابندی عائد کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ ابھی فلم کہاں ریلیز ہوئی؟ جو چیز قوم کو نہیں پتا، آپ وہ کیسے بتا رہے ہیں،کیا آپ نے فلم دیکھی ہے؟ 

جس پر درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ درخواست گزار نے فلم نہیں دیکھی۔

عدالت نے اس پر ریمارکس دیے کہ جب آپ نے فلم دیکھی ہی نہیں تو اس کی تشہیر تو نہ کریں جس پر وکیل صفائی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر فلم کا پرومو جاری ہوا ہے.

 بعد ازاں درخواست گزارکے وکیل نے درخواست واپس لے لی۔

یاد رہے کہ فلم ’زندگی تماشا‘ 24 جنوری کو ریلیز  کی جانی تھی لیکن فلم کی ریلیز تینوں سینسر بورڈز سے منظوری کے باوجود بھی روک دی گئی تھی۔

دوسری جانب پنجاب حکومت نے فلم کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی قائم کی تھی جسے اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے 3 فروری کی تاریخ دی گئی ہے۔

سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ کا جائزہ لینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا جس پر اسلامی نظریا تی کونسل کا کہنا تھا کہ فلموں کے بارے میں رائے دینا ہمارا کام نہیں ہے۔ 

علاوہ ازیں چند روز قبل ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے فلم کی نمائش روکنے کے لیے دھمکیاں ملنے کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد انہوں نے حکومت سے مدد کی اپیل بھی کی تھی۔

سرمد کھوسٹ نے پاکستانی عوام کے نام خط میں کہا تھا کہ اس فلم کی کہانی صرف ایک اچھے مسلمان کی ہے، میں نے اس میں کسی فرقے اور پارٹی نام نہیں لیا بلکہ یہ فلم ایک اچھے مولوی کے حوالے سے ہے۔

مزید خبریں :