05 فروری ، 2020
کورونا وائرس نے چین کے دنیا کی نمبر ون معاشی طاقت بننے کی جانب قدم پر سخت وار کیا جس سے دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت متاثر ہوچکی ہے۔
چین کےشہر ووہان میں پھیلےکورونا وائرس نے تیزی سے ایک بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لیا اور سفر کرنے والوں سے یہ وائرس کئی ممالک تک جاپہنچا ہے، جانوروں سے شروع ہوکر انسانوں کے ذریعے اس کا پھیلاؤ ممالک اور شعبہ طب کے لیے ایک بڑاچیلنج بن گیا ہے جہاں اب اس کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
بینکاک سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ اس کی دوا دریافت کرلی گئی ہے اور بہتر نتائج ملے ہیں۔
اس وائرس کے پھیلاؤ پر مختلف الزامات اور نظریے قائم کیے جارہے ہیں، ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں کی ویب سائٹس میں دی گئی رپورٹس میں یہ کہا گیا ہے کہ چین میں سمندری خوراک، چمگادڑوں اوربلی یا مرغیوں کے گوشت سے یہ وائرس پھیلا ہے جب کہ غیر موزوں خوراک کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔
ادھر ماسکو سے جاری ایک خبر میں روسی پارلیمنٹیرین ولادیمیر جیری نوفسکی نے کورونا وائرس کےپھیلاؤ کو چین کے خلاف امریکی سازش قرار دے دیا۔
گزشتہ دو برس سے چین اور امریکا کے معاشی مفادات کی جنگ نے خطے کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، امریکا کو یہ خدشہ ہے کہ چین معاشی سپر پاور بن کر دنیا کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے گا اور امریکہ پیچھے رہ جائے گا، دونوں طاقتوں کی اس تجارتی جنگ میں اطراف کے ممالک بھی بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
موجودہ صورت حال دیکھیں تو کورونا وائرس کی گونج دنیا کے ہر خطے میں پہنچ چکی ہے اور چین کے لیے اپنے معاشی مفادات پر لگنے والی ضرب کو روکنا مشکل ہوگیا ہے۔
دنیا میں اس وائرس کی تشہیر اتنی تیزی سے جاری ہے کہ چین کی معیشت تیزی سے نیچے گر رہی ہے اور جو ترقی چین نے گزشتہ دوسال میں کرکے مزید اوپر جانے کوشش کی تھی وہ اس وائرس کی زد میں آگئی ہے۔
چین کی سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوچکا ہے مختلف ممالک نے چین کے لیے سفر پر پابندی عائد کردی ہے، چین کے شہریوں کی دوسرے ممالک میں آمدورفت بھی پابندی کی زد میں ہے۔
تجارتی معاہدے اور مصنوعات کے دیے گئے اور نئے آرڈر ز بھی رک چکے ہیں، نیا بھر میں ذرائع ابلاغ میں اس بات کو تقویت حاصل ہوگئی ہے کہ کورونا وائرس انسان، جانوروں کے علاوہ ،خوراک ، مصنوعات اور خام مال کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔
یہ الزام بھی عائد کیا جارہا ہے چین کی معیشت کو زد پر لانے کے لیے ایسا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے لیکن اپنے عوام اور سرزمین کو آفات اور مصیبتوں سے بچانا ہر ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
مختلف بڑی کمپنیوں اور کاروباری اداروں نے فی الحال چین میں اپنے دفاتر بند کردئیے ہیں جب کہ مختلف ممالک کی جانب سے اپنے شہریوں کو تیزی سے وہاں سے نکالا جار ہا ہے۔
چین اپنے تین دہائیوں کے ترقی کے سفر میں بہت کچھ حاصل کرچکا لیکن یہ وائرس یا وار اسے زخمی کرگیا ہے، محتاط لگائے جانے والے اندازے چین کو 60 ارب ڈالرز تک نقصان کی نشاندہی کررہے ہیں جب کہ آئندہ کے کیے گئے معاہدوں پر عمل درآمد پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
چین کی دنیا کی معیشت میں 17 فیصد سے زائد حصے پر پڑنے والے اثرات کا اثر یقیناً دنیا کے ممالک پر بھی پڑے گا جنہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کچھ مشکل فیصلے کرنا پڑیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔