08 فروری ، 2020
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ قریبی ساتھی جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی آٹے اور چینی کی ملوں کی تلاشی لی جائے اور حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا ملک میں چینی بحران پر اپنے بیان میں کہنا تھا کہ جہانگیرترین، خسرو بختیار اور ہمایوں اختر کی ملوں میں کتنی چینی ذخیرہ ہے، وزیراعظم عمران خان نے اب تک نہیں بتایا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیراعظم ملک پر مسلط آٹا، چینی چور اور مہنگائی مافیا کی سربراہی کر رہے ہیں، عوام کو بتایا جائے جہانگیر ترین نے کیوں اور کتنی چینی برآمد کی؟ عوام کو بتایا جائے کہ جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی چینی اور آٹے کی ملوں کی اب تک تلاشی کیوں نہیں ہوئی؟
مریم اورنگزیب نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کہ عوام کو بتایا جائے کہ عوام کی روٹی، چینی اور آٹا چھین کر دوستوں کی جیبیں کیوں بھری جا رہی ہیں؟ ایک سال میں 13 ہزار ارب کا قرضہ کس کی جیب میں گیا ہے؟ اور گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کس کی جیب میں جا رہا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ دواؤں کی قیمتوں میں تاریخی اضافے سے کمایاگیا مال کس کی جیب میں گیا؟ وزیراعظم کی سرپرستی میں ان کے دوستوں نے پابندی کے باوجود چینی اور آٹا درآمد کیوں کیا؟
ترجمان ن لیگ نے کہا کہ وزیراعظم چینی چور، منافع خور اور ذخیرہ اندوز اپنے دوستوں کے خلاف کب کارروائی کریں گے؟ بیرون ملک چینی بیچ کر اربوں کمانے والے اب چینی باہر سے منگوا کر پھر تجوریاں بھر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم قوم کی جیب پر ڈاکے کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے سے کیوں ڈر رہے ہیں؟
خیال رہے کہ جہانگیر ترین حکمران جماعت تحریک انصاف کے رہنما ہیں جنہیں سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی ہے جبکہ خسرو بختیار وفاقی وزیر برائے تحفظ خوراک اور تحقیق ہیں۔
یاد رہے کہ چند روز قبل ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بحران پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ درآمد شدہ گندم آتے آتے مقامی سطح پر گندم کی فصل تیار ہوجائے گی اور پھر گندم کی زیادتی کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
دوسری جانب ملک میں چینی کا بحران بھی سراٹھا رہا ہے جس کے باعث وفاقی حکومت نے چینی کی برآمد پر فوری طور پر پابندی لگانے اور چینی کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارتِ صنعت و پیداوارنے 3 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی تجویز دی ہے۔