09 فروری ، 2020
کورونا وائرس کا معاملہ چین کی حالیہ تاریخ میں ایک ایسا قدرتی معاملہ ہے جس نے بلاشبہ چین کے عوام کو ایک غیر معمولی پریشانی میں مبتلا کر ڈالا ہے۔
شہروں میں باہمی آمدورفت کو روک دینا چینی حکومت کا ایک ایسا اقدام ہے کہ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ چینی حکومت اس وائرس کو کس حد تک خطرہ تصور کر رہی ہے۔
مصیبت کی اس گھڑی میں پاکستان کی ریاست اور عوام اپنے چینی بھائیوں کیلئے دعاگو ہیں، شہباز شریف سے بلاول بھٹو تک سب کے پیغامات واضح کر رہے ہیں کہ پاکستانی قوم کے دل اپنے چینی بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر اس سب کے دوران میڈیا اور سماجی میڈیا پر ایک ایسا گروہ بھی متحرک ہے جو ان سخت لمحات میں گھرے چینیوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے۔
یہ درحقیقت وہ طبقہ ہے جو پاک چین دوستی کے حوالے سے منفی خیالات کا حامل ہے یا اُن میں منفی خیالات بھر دیے گئے ہیں، جب سی پیک کا گزشتہ دورِ حکومت میں آغاز ہوا چاہتا تھا تو اُس وقت بھی چینی صدر کے دورے پر تنقید شروع کر دی گئی تھی جو کسی مثبت خواہش کے پیشِ نظر نہیں تھی بلکہ دونوں ممالک کے یکساں مفاد میں شروع کیے جانے والے منصوبے سی پیک کو پاکستانی عوام کی نظروں میں مشتبہ اور ضرر رساں ثابت کرنے کی کوشش تھی۔
آج بھی اس قدرتی آفت کے ساتھ ساتھ وہ وجوہات جوڑی جا رہی ہیں کہ بات دور کی کوڑی لانے سے بھی آگے کی محسوس ہوتی ہے مثلاً چین کے داخلی سیاسی حالات جس میں سنکیانگ کا معاملہ موجود ہے، اسے اس قدرتی آفت کو جوڑا جا رہا ہے تاکہ پاکستان میں چین کے حوالے سے منفی خیالات کو پھیلانے میں کامیابی ملے۔
اس کے علاوہ چین میں کھانے پینے کے حوالے سے معاملات پاکستان سے برعکس ہیں اور ان برعکس معاملات کو کورونا وائرس سے جوڑا جا رہا ہے تاکہ ایک ایسا تصور قائم کیا جائے کہ اُن کے ساتھ ہمارا گزارا ممکن نہیں۔
اسی نوعیت کے منفی خیالات کبھی سوویت روس کے متعلق بھی پھیلائے گئے تھے اور اب چین کے حوالے سے پھیلائے جا رہے ہیں، اس لیے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ کورونا وائرس ایک قدرتی آفت ہے اور قدرتی آفات کا شکار کوئی بھی ملک ہو سکتا ہے۔
یہ کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں جب 2010-11میں پنجاب بالخصوص لاہور پر ڈینگی کا جان لیوا حملہ ہوا تھا، شہباز حکومت کیلئے یہ ایک غیر معمولی چیلنج تھا، غیر ملکی ماہرین نے جب ان کو اس حوالے سے بریف کیا تو بتایا کہ تنہا لاہور میں ہی ہزاروں اموات ہو جائیں گی۔
جس کو دنیا کے ماضی کے تجربات کی روشنی میں روکنا ممکن نہیں، ڈینگی سے شہریوں کو بچانے کیلئے حکومت پنجاب تل گئی، تمام اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہوئے متحرک کر دیا گیا اور وزیراعلیٰ صرف دفتر میں بیٹھ کر ہدایات نہیں دیتے رہے بلکہ باہر فیلڈ میں نکل آئے۔
لیڈر جب خود میدان میں ہو تو ٹیم کے حوصلے اور کام کی استعداد بہت بڑھ جاتی ہے نتیجتاً ڈینگی پر کامیابی سے قابو پانے کیلئے اسپتالوں سے سرعت سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جس کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا گیا کہ لاہور میں کون سے علاقے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
جیوگرافک انفارمیشن سسٹم کے ذریعے جب علاقوں کی شناخت ہو گئی تو ان کو فوکس کر لیا گیا، پھر اس کے نتیجے میں ڈینگی کے خلاف ’لاہور ماڈل آف سیکسیس‘ وجود میں آ گیا۔
وہ اموات کی تعداد جس کو 25ہزار توقع کیا جا رہا تھا، انتھک محنت اور خدائے تعالیٰ کے خاص فضل کے سبب ایک ہزار کے نصف تک بھی نہ پہنچ سکیں، سری لنکا نے 30برسوں میں ڈینگی پر قابو پایا جبکہ اس وقت کی صوبائی حکومت نے پہلے سال ہی معاملات کو بہت حد تک کنٹرول کر لیا۔
اس سب کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ بالکل واضح ہے کہ قدرتی آفات کو کسی مخصوص وجہ سے جوڑنا درست نہیں، لہٰذا امید کی جانی چاہئے کہ ہمارے چینی بھائی بھی اس پر جلد قابو کر لیں گے۔
ضرورت صرف انتھک محنت کی ہے جس میں چینی مشہور ہیں، چند دنوں میں ہزار بستروں کا اسپتال تعمیر کر لینا اس بات کی دلیل ہے کہ وسائل، وژن اور محنت سب کچھ وہاں پر موجود ہے۔
کورونا وائرس کے حملے کے حوالے سے اور بھی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں، حیاتیاتی جنگ کے حملے کے طور پر بھی اس کو دیکھا جا رہا ہے، اس بات سے قطع نظر کہ حیاتیاتی جنگ کا یہ شاخسانہ ہے یا نہیں، ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا میں حیاتیاتی حملے کا امکان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے اور اگر اس نوعیت کی ہتھیار سازی کی گئی تو اس سے سپر پاورز کے علاوہ باقی ملک بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔
جیسے ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں سب ضرورت مند سرپٹ بھاگنے لگے، لہٰذا اس پر وقت سے پہلے ہی عالمی برادری کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جس میں کسی کو استثنیٰ نہ ہو۔
اسی طرح یہ سمجھنا کہ اس وائرس سے چینی معیشت کسی ایسے گرداب میں پھنس کر رہ جائے گی کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹیو اور سی پیک کو مکمل کرنے کیلئے وسائل پیدا کرنے سے بھی قاصر ہو جائے گی، درست تجزیہ نہیں ہے۔ امید ہے کہ چینی اس وبا پر جلد قابو پالیں گے۔ مشکل وقت میں اپنے دوستوں کیلئے پاکستانی قوم دعاگو ہے۔