11 فروری ، 2020
امل ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس پاکستان سندھ پولیس پر برس پڑے اور کہا کہ پولیس کو سب پتا ہے اسٹریٹ کرائم میں کون ملوث ہے، یہ نہیں پتا کہاں گولی چلانی ہے کہاں نہیں؟
سپریم کورٹ نے امل عمر ہلاکت ازخود نوٹس نمٹاتے ہوئے سندھ حکومت کو امل کے والدین کو 10 لاکھ روپے امداد دینے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ پولیس کو علم ہی نہیں کہاں گولی چلانی ہے کہاں نہیں، پولیس کو عزت افسران دلا سکتے ہیں، کانسٹیبل نہیں، پولیس کو سب معلوم ہوتا ہے اسٹریٹ کرائم میں کون ملوث ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے ریمارکس دیے کہ کانسٹیبل صرف حکم مانتا اور اس چکر میں اپنے کام نکالتا ہے، محکمہ بدنام ہونے پر اسے کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ تین دن پہلے ایک لڑکے سے اسکول بیگ تک چھین لیا گیا، چار لوگ ایک نوجوان پر اسلحہ تان لیں تو وہ کیا کرے گا؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں رینجرز نے ایک لڑکے کو گولی مار کر قتل کیا تھا، رینجرز نے سپریم کورٹ تک اپنے اہلکار کا مقدمہ لڑا، پولیس واقعہ ہوتے ہی اپنا اہلکار برطرف کر دیتی ہے، پولیس اہلکاروں نے امل کو جان بوجھ کر نہیں مارا ہوگا، پولیس کی مناسب ٹریننگ کی ضرورت ہے، اداروں کو اپنے جوانوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے، ادارے جوان کا ساتھ ہی نہ دیں تو وہ کام کیسے کرے گا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ چلتی سڑک پر ڈکیتیاں ہونا پولیس کی ناکامی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سنا ہے پولیس میں مزید 20 ہزار بھرتیاں ہو رہی ہیں، لگتا ہے سڑکوں پر عوام سے زیادہ پولیس ہوگی، سندھ حکومت امل کے والدین کو 10 لاکھ روپے امداد دے، امداد امل کے والدین اور راہ امل ٹرسٹ میں برابر تقسیم کی جائے، پولیس سمیت تمام متعلقہ ادارے انکوائری کمیٹی کی سفارشات پرعمل درآمد کریں۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کےخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے جس کے بعد امل عمر ہلاکت از خود کیس نمٹادیا گیا۔
دوران سماعت امل کی والدہ بیٹی کی یاد میں آبدیدہ ہوگئیں۔
واضح رہے کہ 13 اگست 2018 کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی امل بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔
رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ امل کی موت پولیس اہلکار کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی، دوسری جانب بچی کے والدین کا مؤقف تھا کہ اسپتال انتظامیہ نے بھی بچی کو وقت پر طبی امداد نہیں دی تھی، جس کی وجہ سے وہ دم توڑ گئی جس کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے 18 ستمبر کو واقعے کا نوٹس لیا تھا۔
اس وقعے کے بعد زخمیوں کے لازمی و فوری علاج اور بعد میں کرمنل سمیت دیگر امور کو مکمل کرنے کا بل سندھ اسمبلی سے منظور کیا گیا جسے ڈیفنس میں فائرنگ سے جاں بحق بچی امل عمر کا نام دیا گیا ہے۔