دنیا
Time 12 فروری ، 2020

سی آئی اے پاکستان سمیت 120 ممالک کی خفیہ معلومات کیسے چوری کرتی رہی؟

امریکی اور جرمن خفیہ اداروں کی جانب سے کوڈنگ مشیوں کے ذریعے کئی سالوں تک پاکستان ، ایران اور بھارت سمیت متعدد ممالک کی خفیہ معلومات چرانے کا انکشاف ہوا ہے۔

یہ انکشاف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ، جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف اور سوئس چینل ایس آر ایف کی ایک مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق خفیہ پیغامات بھیجنے کے لیے کوڈنگ مشینیں بنانے والی سوئٹزر لینڈ کی معروف کمپنی ’کرپٹو  اے جی‘ دراصل امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ملکیت تھی اور سی آئی اے نے اس وقت کے مغربی جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسی بی این ڈی سے بھی اشتراک کر رکھا تھا۔

سوئس کمپنی کرپٹو اے جی نے جنگ عظیم دوم سے لے کر سن 2000ء تک 120 ممالک کو کوڈنگ ڈیوائسز فراہم کیں جسے ان ممالک کے جاسوس، فوجی اور سفارت کار خفیہ پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔

تاہم 2000 ءکے بعد جدید ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک چپ کی آمد سے کمپنی کی پیداوار میں واضح کمی سامنے آئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سی آئی اے اور بی این ڈی نے ان مشینوں میں خفیہ پیغامات چوری کرنے کا نظام قائم کرکھا تھا اور جیسے ہی کسی ملک سے پیغام جاری ہوتا وہ امریکی اور جرمن خفیہ اداروں کو بھی ڈی کوڈ ہو کر مل جاتا تھا۔

 کرپٹو اے جی نے جنگ عظیم دوم سے لے کر سن2000ء تک 120 حکومتوں کو کوڈنگ ڈیوائسز فراہم کیں،فوٹو:فائل

اس طرح امریکی اور جرمن خفیہ ایجنسی کو 120 ممالک کی خفیہ سرگرمیوں اور معلومات سے آگاہی رہتی تھی۔

امریکی میڈیا نے اس آپریشن کو گذشتہ صدی کے دوران انٹیلی جنس کی دنیا کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا ہے۔

جن ممالک کے پیغامات چوری کیے گئے ان میں پاکستان ، ایران اور بھارت بھی شامل ہیں۔

اسی جاسوسی کے نظام کے ذریعے امریکا نے 1979 میں ایران میں امریکی سفارتکاروں کی یرغمالی کے بحران کے دوران ایرانی حکام پر نظر رکھی جب کہ اسی نظام کے ذریعے فاک لینڈ جنگ کے دوران ارجنٹینا کی فوج کی معلومات برطانیہ کو فراہم کی گئیں۔

'سی آئی اے اور بی این ڈی نے لاکھوں ڈالر بھی کمائے'

رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے1980 کی دہائی میں کوڈنگ ڈیوائسز سے 40فیصد غیرملکی پیغامات کاجائزہ لیا، اس دوران سی آئی اے اور بی این ڈی نے ڈیوائسز کی فروخت سے لاکھوں ڈالر منافع بھی کمایا۔

جرمن خفیہ ادارہ 1990 میں اس منصوبے سے علیحدہ ہوگیا تھا تاہم اس دوران سی آئی اے نے 2018 میں کمپنی کو دوسرے مالکان کو فروخت تک اپنا کام جاری رکھا۔

دنیا کے دو بڑے ممالک روس اور چین نے کبھی ان مشینوں پر اعتبار نہیں کیا، اس لیے انہوں نے اسے استعمال ہی نہیں کیا۔

کرپٹو اے جی اب بھی ایک درجن سے زائد ممالک کو اپنے آلات فروخت کررہی ہے ،فوٹو:فائل

اس حوالے سے سوئس حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس کے بارے میں گذشتہ سال نومبر میں پتا چلا ہے اور اس سلسلے میں ایک ریٹائرڈ وفاقی جج کو تفتیش کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں سیاستدانوں نے حکومت سے کمپنی کا ایکسپورٹ لائسنس معطل  کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

کرپٹو اے جی اب بھی ایک درجن سے زائد ممالک کو اپنے آلات فروخت کررہی ہے۔

2018 میں کمپنی کے بڑے شیئر ہولڈرز کی جانب سے اپنانے اثاثے نکال لیے گئے تھے تاہم سوئس قوانین کے مطابق تاحال ان کا نام خفیہ رکھا گیا ہے جب کہ نئے مالکان کی جانب سے جاسوسی کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا ہے۔

مزید خبریں :