16 فروری ، 2020
نبی کریمﷺ اپنے جان نثار صحابہؓ کے ساتھ مسجدِ نبویؐ میں تشریف فرما ہیں، آپﷺ نے خواب میں بیتُ اللہ کے طواف اور عُمرے کی ادائی کا احوال بیان فرماتے ہوئے صحابہ کرامؓ کو مکّہ چلنے کی ترغیب دی۔
بیتُ اللہ کی زیارت سب ہی مسلمانوں کی تمنّا ہوتی ہے اور پھر وہ تو جان نثارانِ مصطفیٰ ؐ تھے کہ جن کے دِلوں کی ہر ہر دھڑکن میں مکّے کی یادیں رَچی بسی تھیں۔ چناں چہ حضورﷺ کے ارشادِ مبارک نے صحابہ کرامؓ کو خوشی سے نہال کردیا۔
یکم ذی القعدہ کی صبح آپﷺ نے غسل فرمایا اور اپنی اونٹنی پر رونق افروز ہوگئے۔ 1600صحابہؓ کا نورانی لشکر آپﷺ کے ہم راہ تھا۔ صحابہؓ کو حکم تھا کہ چمڑے کی میانوں کے اندر بند تلواروں کے علاوہ کوئی اور ہتھیار ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ آپؐ نے ذوالحلیفہ پہنچ کر قربانی کے اونٹ طلب فرمائے، جن کی تعداد 70 تھی۔
قربانی کی علامت کے طور پر اُن کے کوہانوں کی دائیں جانب نشان بنائے اور گلے میں قلاوے پہنائے، آپﷺ نے عُمرے کا احرام باندھا، تلبیہ کہا، صحابہؓ نے بھی آپﷺ کی تقلید کی۔ پھر 20 مسلمانوں کا ہر اول دستہ حضرت عبادؓ بن بشر کے ساتھ روانہ فرمایا۔ قریش کو جب مسلمانوں کے آنے کی اطلاع ملی، تو اُنہوں نے قبائلی سرداروں کا ہنگامی اجلاس بلالیا اور متفّقہ طور پر طے کیا کہ مسلمانوں کو کسی صُورت خانۂ کعبہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
آنحضرتﷺ نے ایک شخص کو بطور جاسوس آگے روانہ کیا تھا، جس نے واپس آکر قریش کے فیصلے سے مطلع کیا۔ آپﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ فرمایا، تو سیّدنا صدیقِ اکبرؓ نے رائے دی کہ ہم صرف عُمرے کے لیے جارہے ہیں، لڑنے کے لیے نہیں، لیکن اگر کوئی بیتُ اللہ جانے سے روکتا ہے، تو ہمیں اُس سے لڑنا چاہیے۔
اس پر رسول اللہﷺ نے سفر جاری رکھنے کا فیصلہ فرمایا، دَورانِ سفر بنی کعب کے ایک شخص نے آپﷺ کو اطلاع دی کہ قریش کے جنگ جُوؤں نے’’ زی طویٰ‘‘ کے مقام پر پڑاؤ ڈال رکھا ہے، جب کہ خالد بن ولید( جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) دوسو مسلّح سواروں کے ساتھ مدینے سے مکّہ جانے والی مرکزی شاہ راہ پر مسلمانوں سے مقابلے کے لیے کھڑے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس اطلاع پر مرکزی راستہ چھوڑ کر گھاٹیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے ایک پُر پیچ راستہ اختیار کیا۔
’’ ثینۃ المرار‘‘ پہنچ کر نبی کریمﷺ کی اونٹنی’’ قصواء‘‘ خود بخود بیٹھ گئی۔ صحابہ کرامؓ نے اُسے اُٹھانا چاہا، لیکن وہ بیٹھی رہی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ خود سے نہیں بیٹھی، پھر جب آپﷺ نے اُسے چلنے کا حکم دیا، تو وہ اُٹھ کرچل پڑی۔ آپﷺ نے مقامِ حُدیبیہ کے کنویں پر پہنچ کرقیام فرمایا۔ اُس کنویں میں بہت تھوڑا پانی تھا، جو کچھ ہی دیر میں ختم ہوگیا۔ آپﷺ نے حضرت براء بن عازبؓ کو ایک تیر دیا، جس کے کنویں میں ڈالتے ہی کنواں پانی سے لبالب بھرگیا اور پھر لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔
قبیلہ خزا عہ کا رئیسِ اعظم، بدیل بن ورقاء چند رؤسا کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ شخص آنحضرتﷺ کا خیر خواہ تھا اور آپؐ تک کفّار کے منصوبوں کی اطلاع پہنچایا کرتا تھا۔ بدیل نے فتحِ مکّہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ آنحضرتﷺ نے اس وفد کو بتایا کہ ہم صرف عُمرہ کرنے آئے ہیں، لڑنا ہمارا مقصد نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ قریش ہمیں عُمرہ کرنے دیں اور ہم سے تحریری معاہدہ کرلیں۔
بدیل اور اُس کے رفقا نے قریش کو آپﷺ کا پیغام پہنچایا۔ بعدازاں، قریش نے بنو کنانہ کے سردار، حلیس بن علقمہ کو بھیجا۔ اُس نے قربانی کے اونٹوں کو قلاوہ پہنے اور کوہان میں چیرےدیکھے، تو قریش سے کہا’’ ان لوگوں کو بیتُ اللہ آنے دو‘‘، لیکن قریش اپنی ضد پر اَڑے رہے۔پھر عروۃ ابنِ مسعود الثقفی قاصد بن کر آیا۔ آپﷺ نے اُس سے بھی وہی بات کی، جو بدیل اور حلیس سے کہہ چُکے تھے۔
اب آنحضرتﷺ نے اپنی طرف سے حضرت خراشؓ بن اُمیّہ خزاعی کو سفیر بناکر بھیجا، لیکن قریش نے اُن کا اونٹ ذبح کر ڈالا اور اُنہیں بھی قتل کرنا چاہتے تھے، لیکن حلیس نے بچا کر واپس بھیج دیا۔ آنحضرتﷺ نے حکمت کے تقاضوں کے پیش نظر ایک اور سفیر بھیجنے کا قصد فرمایا اور اس مرتبہ یہ اعزاز سیّدنا عثمانؓ بن عفّان کو ملا۔ وہ آپﷺ کا پیغام لے کر ابو سفیان کے پاس پہنچے۔
حضرت عثمانؓ کے مکّہ جانے کے بعد اُن کی شہادت کی افواہ پھیل گئی، جس پر رسول اللہﷺ نے حضرت عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے صحابہؓ کو جمع کیا اور ایک درخت کے نیچے اُن سب سے بیعت لی۔ حضرت عثمانؓ کی طرف سے حضورﷺ نے خود بیعت لی۔ اس بیعت کا نام’’ بیعتِ رضوان‘‘ ہے، جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا’’اللہ مومنین سے راضی ہوا، جب کہ وہ آپؐ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے‘‘( سورۃ الفتح)۔دَورانِ بیعت حضرت عثمانؓ بھی آگئے ۔ بیعت کی خبر سے قریش کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا اور وہ صلح پر راضی ہوگئے۔
قریش نے سہیل بن عمرو کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا، جنہوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر صلح کی شرائط طے کیں، جنہیں حضرت علیؓ نے تحریر کیا۔ اُنہوں نے صلح نامے کو’’ بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم‘‘ سے شروع کیا، تو سہیل بن عمرو نے کہا کہ بسم اللہ کی بجائے قدیم الفاظ’’ باسمک اللٰھمّ‘‘ لکھے جائیں، آنحضرتﷺ نے اسے منظور فرما لیا۔صلح نامے کی شرائط یہ تھیں(1) مسلمان اِس سال واپس چلے جائیں۔
اگلے سال آئیں اور صرف تین دن قیام کرکے چلے جائیں۔(2) ہتھیار لگا کرنہ آئیں۔ صرف تلواریں ساتھ لائیں، وہ بھی نیام میں اور نیام بھی تھیلے میں ہو۔(3) اگر کوئی شخص مکّہ سے مدینہ جائے گا، تو اُسے واپس کردیا جائے گا، لیکن اگر کوئی مسلمان مکّہ آجائے، تو واپس نہیں کیا جائے گا۔(4) قبائلِ عرب کو اختیار ہوگا کہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں، معاہدے میں شریک ہوجائیں۔(5) صلح نامے کی مدّت دس سال ہوگی۔ اس عرصے میں کوئی فریق دوسرے فریق کے جان ومال پر معترض نہ ہوگا اور باہم امن وامان سے رہیں گے۔
صلح حُدیبیہ کے بعد آنحضرتﷺ کے حکم پر مسلمانوں نے اپنے جانور ذبح کیے، سَر منڈوائے اور احرام کھول دئیے۔ فطری طور پر کئی صحابہؓ کا اس معاہدے کے حوالے سے ذہن واضح نہیں تھا، لہٰذا حدیبیہ سے مدینہ جاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۂ فتح کا نزول فرمایا اور اُس کی ابتدا اِس آیت سے فرمائی(ترجمہ)’’ بے شک(اے نبیؐ) ہم نے آپؐ کو ایک کُھلّم کُھلی فتح دی۔‘‘ اِس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو’’ فتحِ مبین‘‘ سے تعبیر فرمایا اور یہ صلح ہی فتحِ مکّہ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
صلح حُدیبیہ کے بعد کی بات ہے کہ ایک صبح قریش کی فوج کے سپہ سالارِ اعظم، خالد بن ولید کا تیز رفتار گھوڑا مدینے کی جانب دوڑا چلا جارہا تھا۔ راستے میں قریش کے دو دیگر نام وَر سالاروں، عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ نے اُنھیں یوں تنہا مدینے کی جانب رواں دواں دیکھا، تو پوچھا’’ اے ابو سلمان! کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ بولے’’ مدینہ جارہا ہوں، مسلمان ہونے۔‘‘ دونوں نے حیرت اور خوشی سے اُن کی جانب دیکھا اور گویا ہوئے ’’واللہ! ہمارا بھی یہی ارادہ ہے۔‘‘ پھر قریش کی فوج کے یہ تین طاقت وَر ستون بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضر ہو کر مُشرّف بہ اسلام ہو گئے۔ اس موقعے پر رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا’’ مکّے نے اپنے جگر گوشے تمہاری جُھولی میں ڈال دیئے ہیں۔‘‘
امام بخاریؒ کے مطابق یہ غزوہ، فتحِ خیبر سے صرف تین روز پہلے پیش آیا۔ رسول اللہﷺ کی بیس اونٹنیاں مدینے سے بارہ میل دُور، الغابہ میں چَرتی تھیں، جن کے نگراں حضرت ابوذرؓ تھے۔ ایک شب عینیہ بن حض نے چالیس سواروں کے ساتھ حملہ کرکے حضرت ابوذرؓ کے بیٹے کو شہید کردیا اور سب اونٹنیاں بھگا کر لے گیا۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ جب مجھے اطلاع ملی، تو مَیں نے اپنا گھوڑا ایک شخص کے حوالے کیا کہ فوراً رسول اللہﷺ کو اطلاع دے اور پھر اُن کا تعاقب کرتے ہوئے اُنہیں جا لیا۔ وہ ایک جگہ اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے۔
مَیں نے اُن پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی اور مسلسل اُن کا پیچھا کر کے اُن پر تیر اور پہاڑ کے پتھر برساتا رہا، یہاں تک کہ اُنہوں نے رسول اللہﷺ کی تمام اونٹنیاں آزاد کر دیں، مگر مَیں نے پھر بھی اُن کا پیچھا جاری رکھا، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے سواروں کو دیکھا، جو درختوں کے درمیان سے چلے آ رہے تھے۔ لڑائی کی جگہ پہنچے، تو عینیہ نے حضرت اخرمؓ پر حملہ کر کے اُنہیں شہید کر دیا۔ اتنے میں حضرت ابو قتادہؓ نے نیزہ مار کر اُسے جہنّم رسید کر دیا۔ یہ دیکھ کر باقی حملہ آور بھاگ نکلے۔ مَیں اُن کے پیچھے پیدل ہی بھاگتا رہا۔ سورج ڈوبنے سے پہلے وہ لوگ ایک گھاٹی کی طرف مُڑے، جس میں ’’ذی قرد‘‘ نامی ایک چشمہ تھا۔ وہ بہت پیاسے تھے، لیکن مَیں نے اپنے تیروں کی مدد سے اُنہیں پانی سے دُور رکھا۔
سورج غروب ہو چُکا تھا کہ رسول اللہﷺ اور دیگر صحابہؓ میرے پاس آ گئے۔ مَیں نے عرض کیا’’یارسول اللہﷺ! وہ پیاسے ہیں۔ اگر آپ مجھے ایک سو سپاہی دے دیں، تو مَیں اُن کے تمام گھوڑے زین سمیت چھین لوں اور اُن کی گردنیں پکڑ کر آپؐ کی خدمت میں حاضر کر دوں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا’’اکوع کے بیٹے! تم ان پر قابو پا چُکے، اب ذرا نرمی برتو۔ وہ لوگ اس وقت بنی غطفان کی پناہ میں ہیں۔‘‘جب صبح ہوئی، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ ہمارے سواروں میں سب سے بہتر آج ابو قتادہؓ ہیں اور پیادوں میں سب سے بہتر ابو سلمہؓ ہیں۔‘‘ پھر رسول اللہﷺ نے مجھے دو حصّے دیئے، ایک پیادے کا اور ایک سوار کا۔ مدینہ واپس جاتے ہوئے آپؐ نے مجھے اپنے پیچھے اونٹنی پر بِٹھا لیا۔
مدینے کے شمال میں خیبر نامی ایک بہت خُوب صورت، سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ پَھلوں، پھولوں سے لَدے باغات، لہلہاتے کھیت کھلیان، شفّاف پانی کے چشمے اُس کا حُسن دوبالا کرتے تھے۔ وہاں یہودیوں کی کئی بڑی بڑی آبادیاں تھیں، جن میں خیبر، فدک اور وادی القریٰ زیادہ مشہور تھیں، لیکن یہودیوں کی فوجی قوّت کا مرکز اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا گڑھ خیبر تھا۔ آنحضرتﷺ کے مدینہ ہجرت کے بعد بنو نضیر، بنو قریظہ سمیت مدینے کے گردونواح کے بہت سے یہودی وہاں آباد ہو گئے تھے۔
وہ مشرکینِ مکّہ کے ہم درد اور اہم حلیف تھے۔ نیز، مدینے کے منافقین سے بھی اُن کے گہرے مراسم تھے۔ غزوۂ خندق اُن ہی کی سازشوں اور کوششوں کا نتیجہ تھا۔ جنگ کے دوران بنو قریظہ کو خیبر کے ان یہودیوں ہی نے غدّاری اور بغاوت پر آمادہ کیا تھا۔ رسول اللہﷺ حدیبیہ میں قریش سے معاہدہ کر کے مدینہ تشریف لائے، تو ایک بار پھر خیبر کے یہودیوں کی سازشوں کی خبریں ملیں، لہٰذا آپؐ نے خیبر روانگی کا اعلان فرما دیا۔
اہلِ خیبر حسبِ معمول اپنے پھائوڑے، کدال اور ٹوکریاں لیے کھیت کھلیانوں کی جانب رواں دواں تھے کہ اچانک سامنے سے مسلم سپاہ کا لشکرِ عظیم آتے دیکھا، تو بدحواس ہو گئے اور چیخ پکار کرتے اپنے قلعوں کی جانب بھاگے۔ خیبر کی آبادی دو حصّوں میں تقسیم ہے۔ پہلے میں پانچ قلعے تھے اور دوسرے میں تین۔ ان آٹھ مضبوط قلعوں کے علاوہ مزید قلعے بھی تھے، لیکن لڑائی صرف پہلے حصّے ہی میں ہوئی۔ ان آٹھ قلعوں میں دفاعی نقطۂ نظر سے سب سے اہم اور بڑا قلعہ’’ ناعم‘‘ تھا۔ یہ ’’مرحب‘‘ نامی ایک نام وَر یہودی سردار کا قلعہ تھا، جو طاقت کے اعتبار سے ایک ہزار جنگ جُوئوں کے برابر تھا۔ مسلمانوں نے کئی دِنوں سے اس قلعے کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور یہودی اُنھیں آگے نہیں بڑھنے دے رہے تھے۔
ایک شام آنحضرتﷺ نے فرمایا’’کل اُس شخص کو جھنڈا دوں گا، جس سے اللہ ، رسولﷺ محبّت کرتے ہیں اور جو اللہ اور رسولﷺ سے محبّت کرتا ہے اور اللہ اس کے ہاتھ پر فتح دے گا‘‘(صحیح بخاری)۔ صبح ہوئی، تو نبی کریمﷺ نے پوچھا’’ علیؓ کہاں ہیں؟‘‘ صحابہؓ نے کہا ’’وہ آشوبِ چشم میں مبتلا ہیں۔‘‘ رسول اللہﷺ نے اُنہیں بلوایا اور اُن کی آنکھوں میں لعابِ دہن لگایا، جس سے آنکھیں ٹھیک ہو گئیں۔ آپؐ نے اُنہیں عَلم دیا، تو اُنہوں نے عرض کیا’’ کیا یہود کو لڑ کر مسلمان بنا لیں۔‘‘ ارشاد ہوا’’اُنھیں نرمی کے ساتھ اسلام قبول کرنے کی پیش کش کرو۔ اگر ایک شخص بھی تمہاری ہدایت سے مسلمان ہو جائے، تو یہ سُرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘(صحیح بخاری) تاہم، یہودی اسلام یا صلح پر راضی نہ تھے۔
مرحب قلعے سے رجز پڑھتا نکلا، جواب میں حضرت علیؓ نے بھی رجز پڑھا۔ مرحب بڑے طمطراق کے ساتھ، بدمست ہاتھی کی طرح آگے بڑھا، لیکن حضرت علیؓ نے اس زور سے تلوار ماری کہ وہ اُس کا سَر کاٹتی دانتوں تک اُتر آئی۔ مرحب کے مارے جانے کے بعد یہودیوں نے عام حملہ کر دیا۔ قلعہ قموس20دن کے محاصرے کے بعد فتح ہوا۔ اسی میں سے صفیہ بنتِ حئی بن اخطب اور دوسرے یہودی گرفتار ہوئے۔ آپؐ نے صفیہ سے اُن کی مرضی اور رضامندی سے نکاح فرما لیا۔ صعب دوسرا بڑا قلعہ تھا۔ اُسے حضرت حبابؓ بن منذر انصاری کے دستے نے تین دن کے اندر فتح کیا۔
ناعم، قموس اور صعب کی فتح کے بعد یہودی ،زبیر نامی قلعے میں جمع ہو گئے۔ یہ پہاڑی کے اوپر بنایا گیا تھا اور راستہ بھی بہت خطرناک تھا، لیکن صحابہؓ نے ایک زبردست جنگ کے بعد اُسے بھی فتح کر لیا۔ یہودی وہاں سے بھاگ کر قلعہ حض ابی میں گُھسے اور جب وہ بھی فتح ہو گیا، تو قلعہ نزار میں جا گُھسے، لیکن وہ بھی فتح ہو گیا۔ مفسّرین نے اس غزوے میں مارے جانے والے یہودیوں کی تعداد 93لکھی ہے، جن میں اُن کے بڑے بڑے سردار بھی تھے۔
جب کہ 15سے19 صحابہؓ شہید ہوئے۔ فتحِ خیبر کے بعد ایک یہودی عورت، زینب بنتِ حارث، رسول اللہؐ کے لیے بُھنی ہوئی بکری ہدیے کے طور پر لائی۔ آپؐ نے گوشت کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھا، لیکن فوراً ہی تھوک دیا اور فرمایا’’ اِس میں زہر ملایا گیا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے خاتون سے دریافت فرمایا، تو اُس نے اقرار کر لیا، لیکن نبی رحمتؐ نے اُسے معاف فرما دیا۔ تاہم، اسی دوران ایک صحابی، حضرت بشرؓ بن البراء نے بھی گوشت کی ایک بوٹی کھا لی تھی، جس سے اُن کے جسم میں زہر سرایت کر گیا اور وہ انتقال کرگئے، لہٰذا عورت کو اُن کے قصاص کے طور پر قتل کر دیا گیا۔