Time 17 فروری ، 2020
پاکستان

شکریہ جناب انتونیو!

فوٹو: فائل

یہ کہانی 1960ء سے شروع ہوتی ہے، اس کہانی میں 1993ء میں ایک خطرناک موڑ آیا، 2011ء میں اس کہانی نے ایک خوبصورت موڑ لیا اور 2020ء میں یہ کہانی دنیا بھر میں پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ کر رہی ہے۔

آج کل پاکستانیوں کو اپنے اردگرد زیادہ تر بُری خبریں ملتی ہیں لیکن یہ کہانی پاکستانیوں کیلئے ایک اچھی خبر ہے جس کے کرداروں پر ہم سب فخر کر سکتے ہیں۔ یہ کسی ڈرامے یا فلم کی کہانی نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے کئی جنگ زدہ ممالک میں اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال کر امن و سلامتی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف اُن پاکستانیوں کی کہانی ہے جن کی خدمات کا اعتراف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی بار بار کر رہے ہیں۔ 

انتونیو گوتریس کا 4 روزہ دورۂ پاکستان بہت اہمیت کا حامل ہے، وہ ایک ایسے وقت میں پاکستان آئے ہیں جب پاکستان کے دشمن دنیا کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ پاکستان خطے میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل جنگ زدہ علاقوں میں قیامِ امن کیلئے پاکستان کی قابلِ قدر کوششوں کا برملا اعتراف کر رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں کہ کانگو سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پاکستانی فوج اور پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین کا یونائیٹڈ نیشنز پیس مشن میں ادا کیا جانے والا کردار قابلِ تحسین ہے۔ 

امریکا کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے بھی کانگو میں خدمات سرانجام دینے والی پندرہ خواتین پیس کیپرز کو انعامی میڈلز ملنے پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ 1960ء میں جب کانگو کو بلجیم سے آزادی ملی تو اس افریقی ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ 

اقوام متحدہ 1960ء سے کانگو میں قیامِ امن کیلئے سرگرم ہے اور پاکستان 1960ء سے کانگو میں قیامِ امن کیلئے اقوام متحدہ کی امن فوج کو اپنی خدمات فراہم کر رہا ہے۔ اب تک پاکستانی فوج اور پولیس کے 2لاکھ سے زائد مرد و خواتین 28ممالک میں 46پیس مشنز میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ اس دوران ڈیڑھ سو سے زائد پاکستانی امن کیلئے اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں، ان میں 24 افسران بھی شامل تھے۔

اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پیس مشنز کے دوران 5جون 1993ء کا دن ناقابل فراموش ہے جب صومالیہ کے شہر موغا دیشو میں پاکستان کے 24فوجی جوان امریکی فوجیوں کو بچاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس پیس مشن میں اقوام متحدہ نے امریکہ، پاکستان، ملائیشیا، اٹلی اور جنوبی کوریا کے تیس ہزار فوجیوں کو صومالیہ میں تعینات کیا۔ 

یہاں فرح عدید کے باغیوں نے ایک امریکی ہیلی کاپٹر مار گرایا اور امریکی پائلٹ کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹا، امریکی فوج نے باغیوں کی سرکوبی کیلئے آپریشن شروع کیا تو غلط حکمت ِ عملی کے باعث جانی نقصان اٹھایا۔ اس لڑائی میں امریکہ کے 19، پاکستان کے 25اور ملائیشیا کا ایک فوجی اپنی جان سے گیا۔

امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ فرح عدید کو سوڈان میں روپوش اسامہ بن لادن کی مدد حاصل تھی اور جب 1996ء میں اسامہ بن لادن سوڈان سے افغانستان آئے تو میں نے تورا بورا کے ایک پہاڑی غار میں انٹرویو کے دوران اُن سے اہم ترین سوال یہی پوچھا تاکہ صومالیہ میں پاکستانی فوجیوں پر حملہ کیوں کیا گیا؟ اُسامہ بن لادن نے جواب دیا کہ فرح عدید کی لڑائی دراصل امریکی فوج سے تھی۔ 

ستم ظریفی دیکھئے کہ جس اُسامہ بن لادن نے 1993ء میں 24پاکستانی فوجیوں پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، بعد میں اُسی اُسامہ بن لادن کا تعلق پاکستانی ریاست سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اقوام متحدہ کے پیس مشنز میں پاکستان کے قابلِ فخر کردار کی کہانی پہلی دفعہ 2011ء میں عالمی میڈیا کی زینت بنی جب پنجاب پولیس کی ایک خاتون ڈی ایس پی شہزادی گلفام کو 2011ء میں ویمن پیس کیپنگ پولیس ایوارڈ دیا گیا۔

شہزادی گلفام نے پہلی دفعہ 1997ء میں بوسنیا میں یو این پولیس فورس میں خدمات سرانجام دیں۔ 1999ء میں اُنہیں کوسوو بھیجا گیا۔ 2007ء میں اُنہیں مشرقی تیمور بھیجا گیا۔ 2010ء میں اُنہیں ایک دفعہ پھر مشرقی تیمور بھیجا گیا جہاں وہ ویمن پولیس فورس کی کمان کرتی رہیں۔ 

سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس 27جنوری 2018ء کو کانگو میں جامِ شہادت نوش کرنے والے پاکستان آرمی کے نائیک نعیم رضا کیلئے میڈل کا اعلان کر چکے ہیں۔ پچھلے سال اُنہوں نے سپاہی محمد اشتیاق عباسی، حوالدار ذیشان احمد، سپاہی حضرت بلال، نائیک عبدالغفور، نائیک عبدالرحمٰن، سپاہی یاسر عباس اور نائیک قیصر عباس کیلئے میڈلز کا اعلان کیا جنہوں نے کانگو، سینٹرل افریقن ری پبلک اور دارفر میں امن کیلئے جانیں قربان کر دیں۔ 

جون 2019ء میں کانگو میں پاکستانی خواتین افسران کی پہلی ٹیم تعینات ہوئی جس نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنی فرض شناسی اور محنت سے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ پاکستان کی عزت میں بھی اضافہ کیا۔ اس وقت اقوام متحدہ کے مختلف پیس مشنز میں 78پاکستانی خواتین شریک ہیں۔ 

کانگو میں پاکستان کے علاوہ بھارت اور بنگلا دیش کی ویمن پیس کیپرز بھی سرگرم ہیں لیکن وہاں پاکستانی اور بنگلا دیشی خواتین کو زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پیس مشنز میں خواتین کی تعداد میں اضافہ چاہتے ہیں کیونکہ قیامِ امن کیلئے کوششوں میں خواتین کے کردار کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں خواتین کے مسائل خواتین بہتر انداز میں حل کر سکتی ہیں، اسی لیے مشرقی تیمور میں شہزادی گلفام کو ایک رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ 

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اپنے دورۂ پاکستان میں لائن آف کنٹرول پر تعینات یو این ملٹری آبزرور گروپ سے بھی ملاقات کریں گے اور اُنہیں پتا چلے گا کہ لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں میں بھارتی فوج کی فائرنگ اور شیلنگ سے مقامی آبادی کو کن مسائل کا سامنا ہے۔

انتونیو گوتریس پرتگال کے سابق وزیراعظم ہیں اور اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل بننے کے بعد اُنہوں نے یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کرنے پر امریکی صدر ٹرمپ پر تنقید کی۔ اُنہوں نے روہنگیا مسلمانوں پر میانمار کی فوج کے ظلم و ستم پر بھی جرأتمندانہ موقف اختیار کیا۔ 

اُمید ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو بھارت کی جبری غلامی سے نکالنے کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا کوئی راستہ نکالیں گے۔ اُنہوں نے 1999ء میں مشرقی تیمور کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بطور وزیراعظم پرتگال اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج مظلوم کشمیری اُمید بھری نظروں سے اُن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ 

اُنہوں نے اقوام متحدہ کے پیس مشنز میں پاکستان کے مرد و خواتین کے کردار کو جو پذیرائی بخشی اُس پر تمام پاکستانی اُن کے شکر گزار ہیں اور ان کی مزید کامیابیوں کیلئے دعا گو ہیں۔ 

مزید خبریں :