24 فروری ، 2020
ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا اور اب اس کا اطلاق ملک بھر میں ہو سکے گا۔
زینب الرٹ بل منظوری کے لیے 2 مارچ کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق مصطفٰی نواز کھوکھر نے بتایا کہ بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جائیں گی جو تین مہینے کے اندر بچوں سے زیادتی کے کیسز کا فیصلہ سنائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ بل میں پولیس کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی بچے کی گمشدگی کی ایف آئی آر فوری طور پر درج کرے جب کہ ایف آئی آر درج نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ پولیس افسر کو 2 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
چیئرمین کمیٹی مصطفٰی نواز کھوکھر نے اس امید کا اظہار کیا کہ بل کے ملک بھر میں اطلاق سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں نمایاں کمی آئے گی۔
خیال رہے کہ 10 جنوری 2020 کو قومی اسمبلی سے بھی زینب الرٹ بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا۔
اس سے قبل قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے زینب الرٹ بل کا اطلاق صرف اسلام آباد میں ہونا تھا۔ بل کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے گمشدہ اور لاپتہ بچوں کے حوالے سے ایک ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جائے گا، ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ افسران اور اہلکار بھی تعینات کیے جائیں گے۔
بل کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل زینب الرٹ، رسپانس و ریکوری بچوں کے حوالے سے مانیٹرنگ کا کام کرے گا اور ہیلپ لائن 1099 کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔
منظور بل کے مطابق زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری بل کی نگرانی وفاقی چائلڈ پروٹیکشن ایڈوائزری بورڈ کرے گا، کسی بھی بچے کے لاپتہ ہونے کی صورت میں پی ٹی اے اتھارٹی فون پر بچے کے بارے میں پیغامات بھیجے گی اور بچہ گم ہونے کی صورت میں دو گھنٹے کے اندر مقدمہ درج ہو گا۔
بل کے متن کے مطابق تین ماہ کے اندر ٹرائل مکمل کر کے ملزم کو سزا دی جائے گی اور مقدمے کے اندراج میں تاخیر کرنے والے کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 182 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
قومی اسمبلی سے منظور بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچے کے اغوا کار کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔