Time 29 فروری ، 2020
دنیا

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات پر ایک نظر

فوٹو: فائل

امریکا اور افغان طالبان تاریخی امن معاہدے پر آج دستخط کرنے جا رہے ہیں لیکن 2018 سے شروع ہونے والے مذاکرات میں اب تک کیا کیا ہوا، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

امریکا اور طالبان کے دوران پہلا براہ راست رابطہ جولائی 2018 میں ہوا جب امریکی حکام نے خفیہ طور پر قطر میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی۔

پانچ ستمبر 2018 کو زلمے خلیل زاد کو امریکی محکمہ خارجہ میں صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے افغانستان کے طور پر شامل کیا گیا جس کا مقصد جنگ کے خاتمے کے لیے افغان دھڑوں کے درمیان امن عمل میں سہولت فراہم کرنا تھا۔

12 اکتوبر 2018 کو زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان کی ملاقات قطر میں ہوئی۔

دسمبر 2018 میں طالبان نے اعلان کیا کہ وہ امریکی حکام کے ساتھ قطر میں دوبارہ ملاقات کریں گے۔

25 فروری 2019 کو طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوا جس میں اہم طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر بھی موجود تھے۔

مذاکرات کے بعد زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ مذاکرات کا یہ مرحلہ ماضی کی نسبت زیادہ تعمیری رہا اور فریقین نے امن معاہدے کا مسودہ تیار کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

مجوزہ معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ امریکی اور بین الاقوامی فوجیں افغانستان سے چلی جائیں گی جبکہ طالبان دیگر جنگجو گروپوں کو افغانستان سے آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ان مذاکرات میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تاہم افغان صدر اشرف غنی کو بات چیت سے دور رکھا گیا۔

12 اگست 2019 تک امریکا اور طالبان کے درمیان کے مذاکرات 8 دور مکمل ہو چکے تھے۔

ستمبر 2019 میں زلمے خلیل زاد نے اعلان کیا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا مسودہ طے پا گیا ہے جس کی صدر ٹرمپ سے حتمی منظوری کا انتظار ہے تاہم 8 ستمبر کو صدر ٹرمپ نے کابل میں بگرام ائیر بیس پر حملے کو جواز بنا کر طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کر دیئے۔

افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات کی منسوخی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ معاہدے کی منسوخی سے امریکا کو زیادہ نقصان ہو گا۔

19 نومبر 2019 کو امریکا نے دو غیر ملکی پروفیسرز کے بدلے تین اہم طالبان رہنماؤں کو رہا کیا جس سے دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کی راہ ہموار ہوئی۔

پھر 29 نومبر 2019 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک افغانستان کا دورہ کیا اور طالبان کے ساتھ ایک بار پھر مذاکرات شروع کرنے کا اشارہ دیا جس کے بعد امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے افغانستان کا دورہ کیا اور پھر وہ وہاں سے قطر پہنچے۔

9 دسمبر 2019 کو قطر میں طالبان کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے بھی امریکا کے ساتھ دوبارہ معاہدے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 7 دسمبر کو دونوں فریقین کے درمیان دوبارہ سے معاہدے کا آغاز ہوا۔

14 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر اتفاق ہوا جس میں فریقین کی جانب سے کہا گیا کہ اگر عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد ہوا تو امن معاہدہ آگے چل سکتا ہے۔

 آج دوحہ میں امریکا اور طالبان افغانستان میں طویل ترین جنگ کے خاتمے اور غیر ملکی فوج کے انخلا کے حوالے سے تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں جس سے پاکستان سمیت پورے خطے میں امن و خوشحالی کی راہ ہموار ہو گی۔

مزید خبریں :