Time 04 مارچ ، 2020
پاکستان

سینیٹ نے زینب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کر لیا

سینیٹ نے اغواء اور گمشدہ بچوں کی بازیابی، ریسپانس اور الرٹ کے حوالے سے زنیب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کر لیا، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بل کے خلاف ووٹ دیا۔

قانون کا اطلاق پورے ملک پر ہوگا، بل کے مطابق ایک نئی ایجنسی ’زارا‘ قائم کی جائے گی جو اغواء اور لاپتا بچے کی بازیانی کے لیے کام کرے گی، پولیس دو گھنٹے کے اندربچے کے اغواء یا لاپتا ہونے کی ایف آئی آر درج کرے گی۔

ایف آئی آر اندراج میں تاخیریا رکاوٹ ڈالنے والے پولیس افسرکو 2 سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، ضلع کا سیشن جج خصوصی طور پرکیس مجسٹریٹ یا جج کے حوالے کرے گا جوکیس کو 3 ماہ میں نمٹائے گا۔

سینیٹ میں زینب الرٹ بل منظوری کیلئے پیش کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے اس موقع پر کہا کہ ’زینب الرٹ بل بہت اچھا ہے، ہمارے پاس اس بل کے حوالے سے کچھ ترامیم ہیں، اس بل میں عمر قید کم سزا ہے، اگرثابت ہوکہ بچے کو ریپ یا قتل کیلئے اغوا کیا گیا تو اس کی سزا موت ہونی چاہیے۔

بل میں قصاص سے متعلق سیکشن شامل کیا جائے، جماعت اسلامی

بل پر بحث کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ بل میں سزائے موت کی سیکشن شامل نہیں کی گئی، بل میں قصاص سے متعلق سیکشن کو شامل کیا جائے، قصاص کو دباؤ کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس موقع پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ بل کے حوالے سے ترامیم آپ سینیٹ سیکرٹریٹ میں دیتے۔

بل میں دفعہ 201 اور 302 کو شامل کیا جائے، سراج الحق

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق اور سینیٹر سراج الحق نے بل کی مخالفت کردی۔ سراج الحق نے کہا کہ گذشتہ چند ماہ میں 3 ہزار بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، اس بل میں دفعہ 201 اور 302 کو شامل کیا جائے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مزید کہا کہ قتل کی سزا تو پہلے ہی قصاص ہے، آپ نے بچوں کے قتل کی سزا کو صرف جیل تک محدود کردیا ہے۔

اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ زینب الرٹ بل کو ابھی پاس کر لیں، ترامیم بعد میں شامل کر دیں۔

حکمران جماعت تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے کہا کہ بہت سی باتیں کی جارہی ہیں جن میں وزن بھی ہے، بل پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ کمیٹی میں زیر غور رہا، بل کو پاس کر دیں، ترامیم بعد میں شامل کر دیں۔

تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ بل کو ابھی منظور کر لیں، بعد میں ترامیم شامل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

بچوں کے خلاف سارے جرائم کو اس بل میں شامل کر دیا ہے،مصطفی نوا ز کھوکھر

پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ زینب الرٹ بل پر ہم نے سات آٹھ اجلاس منعقد کیے، بل میں ہم نے کچھ ترامیم کی ہیں۔

مصطفی نوا ز کھوکھر نے کہا کہ بچہ گم ہو تو پولیس فوری ایف آئی آر درج نہیں کرتی،ایف آئی آر درج نہ ہونے سے بچے کے لاپتہ ہونے پر شروع کا وقت ضائع ہوتا ہے، بل میں کہا گیا ہے پولیس دو گھنٹے کے اندر ایف آئی آر درج کرنے کی پابند ہو گی۔

پی پی سینیٹر نے مزید کہا کہ پولیس اگر ایف آئی آر درج نہ کرے تو دو سال سزا ایک لاکھ جرمانہ ہو گا، خصوصی عدالت تین ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی، بچوں کے خلاف سارے جرائم کو اس بل میں شامل کر دیا ہے، قانون میں مزید بہتری کی تجویز دیں تو اسے شامل کرنے کو تیار ہیں۔

سیکشن 201 ، 302 شامل کرنے سے بل مزید مؤثر ہو گا، مشتاق احمد

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایک بار پھ ر کہا کہ سیکشن 201 ، 302 شامل کرنے سے بل مزید مؤثر ہو جائے گا، اگر ریپ اور قتل ثابت ہو جائے تو قصاص کو شامل کیا جائے۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سینیٹر مولوی فیض محمد نے کہا کہ کوئی کسی کو قتل کرے تو اس کے لیے شریعت میں قصاص ہے، ریپ اور قتل کی سزا میں قصاص کو شامل کریں۔

سراج الحق نے کہا کہ ہم قصاص کے بغیر اس بل کو ووٹ نہیں دیں گے، ہم واک آؤٹ کریں گے جس پر جاوید عباسی نے کہا کہ اس میں بل پر واک آؤٹ کی کیا بات ہے، آپ واک آؤٹ کیوں کریں گے؟

بعد ازاں سینیٹ نے زینب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

کم عمری میں شادی کا بل ایجنڈے میں کیوں شامل نہیں ہورہا، شیری رحمان

اس موقع پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ کم عمر لڑکیوں کی شادی کا بل لے کر آئے، وہ ایجنڈے میں کیوں شامل نہیں کیا جا رہا۔

شیری رحمان نے مزید کہا کہ آج نئے وزراء بھی ایوان میں موجود ہیں جو ہمارے لیے نئی بات ہے۔

علاوہ ازیں سینیٹ نے یونیورسٹی آف اسلام آباد کے قیام کا بل بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا۔

خیال رہے کہ 22 فروری 2020 کو ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے زینب الرٹ بل ترامیم کے ساتھ منظور کیا تھا جس کے بعد اس قانون کا اطلاق ملک بھر میں ہو سکے گا۔

اس سے قبل قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے زینب الرٹ بل کا اطلاق صرف اسلام آباد میں ہونا تھا۔ بل کے مطابق وزیراعظم کی طرف سے گمشدہ اور لاپتہ بچوں کے حوالے سے ایک ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جائے گا، ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ افسران اور اہلکار بھی تعینات کیے جائیں گے۔

بل کے مطابق ڈائریکٹوریٹ جنرل زینب الرٹ، رسپانس و ریکوری بچوں کے حوالے سے مانیٹرنگ کا کام کرے گا اور ہیلپ لائن 1099 کے ساتھ مل کر کام کیا جائے گا۔

منظور بل کے مطابق زینب الرٹ، ریسپانس اینڈ ریکوری بل کی نگرانی وفاقی چائلڈ پروٹیکشن ایڈوائزری بورڈ کرے گا، کسی بھی بچے کے لاپتہ ہونے کی صورت میں پی ٹی اے اتھارٹی فون پر بچے کے بارے میں پیغامات بھیجے گی اور بچہ گم ہونے کی صورت میں دو گھنٹے کے اندر مقدمہ درج ہو گا۔

بل کے متن کے مطابق تین ماہ کے اندر ٹرائل مکمل کر کے ملزم کو سزا دی جائے گی اور مقدمے کے اندراج میں تاخیر کرنے والے کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 182 کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

قومی اسمبلی سے منظور بل کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچے کے اغوا کار کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

مزید خبریں :