09 مارچ ، 2020
آزادی چاہیے...ضرور! لیکن کیسی آزادی؟ وہ جو مغرب میں میسر ہے؟ عورت ہو یا مرد دوستی کریں، ایک ساتھ رہیں، جب ایک دوسرے سے اکتا جائیں تو دوست بدل لیں، کسی دوسرے کے ساتھ رہنا شروع کر دیں، بچے پیدا کریں، چاہیں تو شادی کریں، نہیں تو ویسے ہی ساتھ رہیں یا وہ بھی چھوڑ دیں۔
کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں، حتیٰ کہ باپ، ماں، بھائی، بہن کون ہوتے ہیں کہ ایسے معاملات میں مداخلت کریں، کوئی کیسا لباس پہنے اُس کی مرضی، جہاں مرضی جائے کسی دوسرے (جس میں ماں باپ، بہن بھائی بھی شامل ہیں) کا کیا تعلق!
اختلاف اس بات پر نہیں کہ پاکستان میں عورتوں سمیت مختلف طبقات کو حقوق نہیں ملتے، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہمارے ہاں کون سا ظلم و زیادتی ہے جو نہیں ہوتا، اگر عورتوں کا ذکر کریں تو عموماً اُنہیں وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، حق مہر ادا نہیں کیا جاتا، اُن پر تشدد کیا جاتا ہے، شادی کے لیے اُن سے اُن کی رائے نہیں لی جاتی، اُنہیں جاہلانہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
ان تمام زیادتیوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے لیکن ایسا گزشتہ 72سالوں میں نہیں ہوا، اس کے لیے نہ صرف قانون سازی اور قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرے کے اُس مائنڈ سیٹ کو بدلنا بھی ضروری ہے جو ان زیادتیوں اور معاشرتی خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔
اس خراب مائنڈسیٹ کا علاج اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے کی کردار سازی ہے تاکہ معاشرتی معاملات، رویوں اور اخلاقیات میں ہمارا عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔
اب آتے ہیں آزادی کی طرف، چاہے یہ آزادی مرد کی ہو یا عورت کی، جھگڑا اصل میں یہی ہے کہ آزادی کیسی ہو؟ وہ جو مغرب نے دی یا جو اسلام کسی فرد چاہے مرد ہو یا عورت‘ اور معاشرے کو دیتا ہے۔
پاکستان میں ایک بہت چھوٹا لیکن بہت بااثر طبقہ ایسا ہے جو اُس آزادی کا قائل ہے جو مغرب کی میراث ہے اور جس کا میں نے کالم کے ابتدا میں ذکر کیا، اس طبقے کی کوشش ہے کہ پاکستان میں ایسا ہی کلچر عام کیا جائے، اس طبقے کی حمایت میں میڈیا کا ایک طاقتور حصہ بہت پیش پیش ہے۔
پاکستان کے نظریے کو دیکھیں یا آئین و قانون پر نظر دوڑائیں تو یہاں اُس آزادی کا تصور بھی ممکن نہیں جو مغرب سے مرعوب یہ طبقہ پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے، یہاں معاشرے اور افراد کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، وہی آزادی اور حقوق دیے جا سکتے ہیں جن کا تعین اسلام کرتا ہے۔
مغرب جو چاہے کرے لیکن نہ کسی مرد کو نہ ہی کسی عورت کو یہ آزادی دی جا سکتی ہے کہ بغیر شادی کے ساتھ رہیں، جس سے چاہے دوستی کریں، حرام طریقے سے بچے جنیں، مسلمان کے لیے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، آزادی کی حدیں طے ہیں اور معاشرے اور معاشرتی تعلق کے لیے حرام و حلال اور شرم و حیا بنیاد کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔
آج کا پاکستان بھی اسلام سے بہت دور ہے جس کی تربیت کی اشد ضرورت ہے لیکن جہاں یہ مغرب زدہ طبقہ ہمیں لے جانا چاہتا ہے اُس کے نتائج سے تو خود وہ پریشان ہیں جن کی اندھی تقلید میں ہمیں گھسیٹا جا رہا ہے۔
جو مغرب زدہ طبقہ پاکستان میں شرم و حیا کو ختم کرکے مغرب والی آزادی یہاں بڑے پُرکشش نعروں کے ساتھ مسلط کرنا چاہ رہا ہے اُس سے بہت سے معصوم اور ناپختہ ذہن اثر انداز ہو رہے ہیں جن کی رہنمائی کے لیے یہاں میں کچھ حقائق پیش کر رہا ہوں جو ثابت کرتے ہیں کہ آزادی کے نام پر عورت کا جو استحصال امریکا جیسے ملک میں ہو رہا ہے اُس سے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اُس کی اندھی تقلید۔
دسمبر 2019ء میں پیو ریسرچ سینٹر (PEW) کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں ناجائز بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے، شادی کی شرح گھٹ گئی ہے اور بچے کسی ’’بندھن‘‘ کے بغیر پیدا ہو رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکا میں 18سال یا اس سے کم عمر ایک چوتھائی بچے ’’سنگل پیرنٹ‘‘ (جو عموماً عورت ہی ہے) کے ساتھ رہتے ہیں یعنی عورت سے نہ صرف یہ کہ شادی نہیں کی بلکہ بچے بھی پیدا کرکے اُسی کے حوالے کر دیے کہ ان کے اخراجات کے لیے معاشی جدوجہد بھی وہ خود ہی کرے۔
اس سے بڑا استحصال عورت کا اور کیا ہو سکتا ہے؟ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکا میں 35سے 59سال عمر تک کی عورتیں مردوں کے اس عمر کے گروپ سے زیادہ ہیں جو سنگل پیرنٹ کے طور پر رہتی ہیں، تقریباً ایک تہائی (32فیصد) عورتیں جن کی عمریں 60سال یا زائد ہیں، تنہا رہتی ہیں، کیا ایسی آزادی ہمیں چاہیے؟
چلیے ایک اور رپورٹ دیکھتے ہیں جو میڈیا کے اُس گھناؤنے کردار کو آشکار کرتی ہے جس کا ذکر ہمارے ٹی وی چینلز نہیں کریں گے، یونیسیف (UNICEF) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں 18فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ وہ 17سال کی عمر تک جنسی حملوں اور زیادتی کا نشانہ بن چکی ہوتی ہیں۔
خواتین اور لڑکیاں ہی کیوں اس زور زبردستی کا نشانہ بنتی ہیں، اس سوال پر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کا بدقسمتی سے کوئی ایک جواب نہیں ہے، تاہم جب خواتین اور لڑکیوں کو میڈیا کے ذریعے اس انداز میں دکھایا جائے جس سے جنسی جذبات اور خواہشات مشتعل ہوں تو عورتوں پر تشدد ہوتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق میڈیا عورت کو جنسی انداز میں Objectکے طور پر پیش کرتا ہے، امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چہرے کے تاثرات، جسمانی اداؤں اور اشتہا انگیز لباس کے ذریعے اس طرح عورتوں کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ جنسی طور پر تیار ہیں۔
پرنٹ میڈیا کے مطالعہ میں ویزلیان یونیورسٹی کے ریسرچرز کے مطابق 58مختلف رسالوں میں 51.8فیصد اشتہارات میں عورتوں کی نمائش جنسی شے کے طور پر کی گئی جبکہ مردوں کے رسالوں کے اشتہارات میں عورتوں کی 76فیصد تشہیر یا نمائش Sex Objectکے طور پر ہوتی ہے۔
یہ بھی ملاحظہ کریں، 2019میں سینٹر فار امریکن پروگریس میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا میں 1974میں شادی شدہ جوڑوں اور ان کے گھرانوں کی تعداد 84فیصد تھی، 2017میں یہ تعداد گھٹ کر 66.4فیصد رہ گئی، اس کے ساتھ ہی غیر شادی شدہ ماں یا باپ کی سربراہی میں خاندانوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔
1974سے 2015 تک کے عرصہ میں صرف ماں کے ساتھ بچوں سمیت خاندانوں کی تعداد دُگنی ہو کر 14.6سے 25.2فیصد ہوگئی، 1976میں صرف 56.3فیصد شادی شدہ مائیں تنخواہ (پیسوں) کے لیے کام کرتی تھیں، 2017میں یہ تعداد بڑھ کر 69.6فیصد ہوگئی، بچے پالنے والی خواتین میں سفید فام کے مقابلے میں رنگدار خواتین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ غیر شادی شدہ ماؤں میں اکثریت سفید فام عورتوں کی ہے۔
2016میں امریکا کے اندر 40فیصد بچوں کی پیدائش غیر شادی ماؤں کے ہاں ہوئی، رپورٹ کے مطابق 2017میں 41فیصد مائیں اپنے خاندانوں کیلئے روزگار کا واحد ذریعہ ہیں۔
آگے چلیے! امریکا میں خواتین کے استحصال کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے 15اکتوبر 2019کو رپورٹ دی کہ ایک چوتھائی انڈر گریجویٹ عورتوں (یعنی ہر چوتھی طالبہ) کا کہنا ہے کہ وہ جنسی طور پر ہراساں (جس میں زیادتی کے کیس بھی شامل ہیں) کی گئیں، یہ رپورٹ امریکا کی 33بڑی جامعات کے سروے پر مشتمل تھی، 2018میں بلومبرگ میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکا میں 40فیصد بچے شادی کے بغیر پیدا ہوتے ہیں، یہ شرح 1970میں 10فیصد تھی۔
مندرجہ بالا اعداد و شمار امریکا کے اپنے اداروں کے ہیں اور ادارے بھی وہ جن کی کریڈیبلٹی ہے، یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ مغرب کی نام نہاد آزادی نے اُس معاشرے کے خاندانی نظام اور شادی کے ادارے کو تباہ و برباد کرنے کیساتھ ساتھ عورت اور بچوں کو بدترین استحصال کا نشانہ بھی بنایا ہے، ہمیں ایسے رستے پر نہیں چلنا جو ہم سے ہماری بچی کھچی شرم و حیا بھی چھین لے، حیا ختم تو پھر سمجھ لیں کہ سب کچھ ختم۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔