Time 16 مارچ ، 2020
بلاگ

یہ میر شکیل الرحمٰن ہی کر سکتا ہے!

فوٹو: فائل

کوئی 4 سال پہلے جب ICIJ پاناما لیکس پر کام کر رہی تھی تو دی نیوز انویسٹی گیشن سیل کے سینئر صحافی عمر چیمہ اُن پاکستانیوں کے نام ڈھونڈ رہے تھے جو آف شور کمپنیوں کے مالک تھے۔ 

میاں نواز شریف فیملی کے علاوہ دوسرے کئی پاکستانیوں کے نام ICIJکے تحقیقاتی رپورٹرز کے سامنے آ چکے تھے جنہیں عمر چیمہ ایک مخصوص سوال نامہ بجھواتا رہا تاکہ خبر میں شائع کرنے کے لیے اُن کا ردعمل بھی لیا جا سکے۔ 

ایک دن میں آفس میں بیٹھا تھا تو عمر چیمہ میرے پاس آئے اور کہا کہ ’’سر ایک مسئلہ ہو گیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ عمر نے جواب دیا کہ پاناما کی آف شور کمپنیاں رکھنے والوں میں میر شکیل الرحمٰن صاحب کا بھی نام ہے، عمر نے پوچھا ’’اب کیا کریں؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ جیسے دوسروں کو اپنا سوال نامہ بجھوا رہے ہو، اسی طرح میر صاحب کو بھی سوال ای میل کر دو۔

عمر چیمہ نے ایسا ہی کیا، کوئی تین چار روز بعد میری میر شکیل الرحمٰن صاحب سے بات ہوئی تو میں نے اُن سے ذکر کیا کہ عمر چیمہ نے آپ کو ایک ای میل بھیجی ہے، مہربانی کرکے اُسے دیکھ لیں۔ 

میر صاحب نے کہا کہ اُنہوں نے ای میل پڑھ لی ہے اور چند ہی دنوں میں اپنا جواب عمر چیمہ کو بجھوا دیں گے، اُنہوں نے صرف ایک بات کہی کہ عمر چیمہ صاحب سے کہہ دیں کہ میرا ردّعمل پورا شائع کیا جائے۔ 

چند ہفتوں بعد پاناما اسکینڈل بریک کیا گیا اور دنیا بھر کے میڈیا میں اس خبر کی شہ سرخیاں شائع ہوئیں، جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کے بارے میں یہ خبر کہ اُن کی بھی ایک آف شور کمپنی ہے، صرف اور صرف جنگ اور دی نیوز میں شائع ہوئی۔ 

اگر یہ خبر جنگ اور دی نیوز میں شائع نہ ہوتی تو کسی کو معلوم بھی نہ ہوتا کہ میر شکیل الرحمٰن کی بھی ایک آف شور کمپنی تھی، میر صاحب کو معلوم تھا کہ عمر چیمہ پاناما اسکینڈل پر کام کر رہا ہے لیکن اُنہوں نے ایک بار بھی نہ مجھے اور نہ ہی عمر چیمہ کو کہا کہ اُن کا نام اُس لسٹ میں سے نکال دو جس کے بارے میں ICIJ میں بھی عمر چیمہ کے علاوہ کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔ 

یہ وہ شخص ہے جسے اس بنیاد پر نالائق نیب کو استعمال کرکے ایک نام نہاد کیس میں قانون قاعدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گرفتار کیا گیا اور ان کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے کی تصویر لیک کرکے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ جنگ گروپ کے اُن صحافیوں کو کچھ لکھنے اور بولنے سے کیوں نہیں روکتے جس سے حکومتِ وقت ناراض ہوتی ہے، جس سے چیئرمین نیب کو پریشانی ہوتی ہے اور نیب کا اصل چہرہ بےنقاب ہوتا ہے۔

گزشتہ سال میری ایک خبر پر وزیراعظم اتنے ناراض ہوئے کہ ایک اہم سرکاری اہلکار کے ذریعے حکم دیا کہ انصار عباسی کو رات 9 بجے سے پہلے نکال باہر کرو ورنہ جیو کو بند کر دیا جائے گا، کوئی دوسرا ہوتا تو کہتا کہ ایک صحافی کے لیے کیوں اپنا چینل بند کراؤں لیکن میر صاحب نے فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو، انصار عباسی کو نہیں نکالا جائے گا، یہ وہ میر شکیل الرحمٰن ہے جس پر ہر حکومت نے دباؤ ڈالا کہ اُن صحافیوں کو جنگ گروپ سے نکالا جائے جو اپنے وقت کے حکمرانوں کو پسند نہ تھے لیکن میر صاحب نے ہمیشہ یہ اسٹینڈ لیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے اور اسی بنا پر اب سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں۔

میرا تعلق دی نیوز سے ہے، میں جنگ میں ہفتے میں دوبار کالم بھی لکھتا ہوں، میں جیو کی کچھ پالیسیوں کے خلاف ہوں اور بارہا اس کا اظہار ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ اپنے کالموں میں بھی کرتا ہوں، ایک بار میرے ایک کالم (جو جنگ میں ہی شائع ہوا) جس کا نشانہ جیو ٹی وی تھا، کا نوٹس لیتے ہوئے پیمرا نے جیو کو 10 لاکھ روپے جرمانے کا نوٹس بھیجا تھا۔ 

نوٹس کے ساتھ جنگ میں شائع ہونے والا میرا کالم منسلک کیا گیا تھا، اس پر جیو میں موجود چند ایک لوگ مجھ پر برہم ہوئے اور ایک صاحب نے میری شکایت میر شکیل الرحمٰن صاحب کے سامنے کر دی کہ دیکھیں جنگ گروپ میں رہ کر وہ جیو کے خلاف لکھتا ہے اور جرمانے کرواتا ہے۔ 

اس پر میر صاحب نے جواب دیا کہ ایک تو انصار عباسی نے جو لکھا، وہ ٹھیک ہے، دوسرا آپ مجھ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ میں اب انصار عباسی کو ایک صحیح بات لکھنے سے روک کر ایک اور غلط بات کروں؟ یہ وہ شخص ہے جس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی حکمران، کسی طاقتور کے بارے میں وہ حقائق شائع ہونے سے روکے جن کا تعلق عوام کے مفاد سے ہے۔

میں ایسے بہت سے واقعات کا گواہ ہوں جہاں میر صاحب نے دوسروں کی رائے اور آزادیٔ صحافت کو اس حد تک اہمیت دی کہ اپنا نقصان برداشت کر لیا اور اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ 

خبر میری، عمر چیمہ یا کسی دوسرے صحافی کی ہو گی لیکن سارا ملبہ میر شکیل الرحمٰن پر ڈال دیا جاتا ہے جیسے خبر بھی وہی لاتے ہیں اور ہم سے کہہ کر چھپواتے ہیں۔ 

2007ء کی عدلیہ تحریک میں میر صاحب کا کردار بہت اہم تھا،اُن کو آزاد عدلیہ کے خواب سے جذباتی لگاؤ تھا، مجھے معلوم ہے کہ وہ 9مارچ 2007ء کو کتنے پریشان تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو مشرف نے غیر قانونی طور پر معطل کر دیا تھا۔ 

لیکن افتخار چوہدری کی ناں نے ایک تحریک کو جنم دیا جس کا سہرا اُس جنگ گروپ کو جاتا ہے جس کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن ہیں، 9 مارچ کے چند ہی روز بعد جنگ بلڈنگ پر پولیس نے حملہ کیا جس نے اس تحریک کو مزید جان بخشی، اس کے بعد جلد ہی یہ ایک عوامی تحریک بن گئی۔ 

سپریم کورٹ کے فل کورٹ بنچ نے افتخار چوہدری کو بحال کر دیا لیکن3 نومبر 2007ء کو اُس وقت کے ڈکٹیٹر جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی لگا کر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے کئی ججوں کو گھروں میں قید کر دیا۔ 

9 مارچ سے 3نومبر 2007ء کے دوران میر صاحب کی زیر نگرانی آزاد عدلیہ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے جنگ گروپ نے جو کردار ادا کیا وہ ایک تاریخ ہے، 3نومبر کو ایمرجنسی لگی تو میری میر صاحب سے بات ہوئی، وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے کہ یہ کیا ہو گیا، وہ کہنے لگے کہ ہم نے کیا سوچا تھا لیکن مشرف نے اس ملک کی عدلیہ کے ساتھ کیا کر دیا، میں نے میر صاحب سے کہا کہ ان شاء اللہ میرا رب بہتر کرے گا اور ہمیں آزاد عدلیہ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، جیو اور کچھ دوسرے چینلز کو بند کر دیا گیا لیکن میر صاحب کا گروپ اس تحریک میں سب سے آگے رہا۔

پی پی پی کی نومولود حکومت اور پی سی او عدلیہ بھی جنگ گروپ سے اسی تحریک کی وجہ سے شدید ناراض رہی، مالی نقصان بھی پہنچایا، گرفتاری کی بھی دھمکیاں دیں لیکن میر صاحب آزاد عدلیہ کے کاز پر کاربند رہے، آج وہ ایک جھوٹے کیس میں نیب کی قید میں ہیں اور اُنہیں اس حالت پر پہنچانے میں موجودہ حکمرانوں کا اہم کردار ہے۔ اب معاملہ عدلیہ کے پاس ہے، اُسی عدلیہ کے پاس جس کی آزادی کی جنگ میں میر شکیل الرحمٰن کے جنگ گروپ کا کلیدی کردار تھا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔