19 مارچ ، 2020
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے زینب الرٹ ، ریسپانس اینڈ ریکوری بل 2019 پر دستخط کر دیے ہیں۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کردہ یہ بل اب باضابطہ قانون بن گیا ہے جس کا اطلاق فوری طور پر ملک بھر میں ہوگا۔
صدر پاکستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ قانون بچوں کے اغوا کے واقعات میں تیزی سے کارروائی و بازیابی کے لیے ایک بہترین قانون ہے۔
عارف علوی کے مطابق یہ قانون مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے ٹیکنالوجی بروئے کار لانے اور اسے بہتر بنانے میں بھی معاون ہوگا اور اس قانون سے فری ہیلپ لائن کا قیام، پولیس اور انتظامیہ کے فوری ردعمل کا فریم ورک عمل میں آئے گا۔
جیو نیوز کے حاصل کردہ زینب الرٹ قانونی مسودے کے مطابق بچوں کو اغوا ، قتل اور ہوس کا نشانہ بنانے پر سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔
ڈسٹرکٹ سیشن جج کیس مجسٹریٹ یا جج کے حوالے کرے گا جو اسے 3 ماہ میں نمٹائے گا۔
قانون کے تحت پولیس 2گھنٹے کے اندر بچے کے اغوا یا لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرے گی۔
کیس کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کو ضابطہ فوجداری کے تحت اختیارات حاصل ہوں گے۔
جو پولیس افسر بچے کی گمشدگی کی ایف آئی آر اندراج میں تاخیر کرے گا یا رکاوٹ ڈالے گا اسے 2 سال تک سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے 10 جنوری 2018 کو قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی کے نام سے پیش کیے گئے زینب الرٹ بل کو متفقہ طور پر منظورکیا تھا جب کہ 4 مارچ 2020 کو سینیٹ میں یہ بل کثرت رائے سے منظور ہوا تھا۔