21 مارچ ، 2020
اسلام آباد:جنگ/جیو گروپ کے ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمٰن کو ایک 34 سال پرانے کیس میں ملوث کرنے میں ناکامی کے بعد اب نئے کیسز گھڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم اس پیش رفت سے متعلقہ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف سرکاری محکموں سے کہا گیا ہے ان کے پاس معلومات ہیں تو وہ ان سے نیب آفس لاہور کو آگاہ کریں۔
تفتیش کار نیشنل بینک سے قرضے کی سہولت کے حوالے سے کیس کا جائزہ لے رہے ہیں (جو پہلے ہی طے ہو چکا)۔ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کی دیانت کو نشانہ بنانے کے لیے کسی ثبوت کے بغیر غیرملکی فنڈنگ کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
جنگ/جیو گروپ کے خلاف ایس ای سی پی کا کوئی بھی کیس زیرالتوا نہیں ہے۔ جہاں تک نیشنل بینک کی قرضے کے لیے سہولت کا تعلق ہے، بینک اور قرض لینے والا دونوں ہی قانونی چارہ جوئی میں چلے گئے۔ مقدمے کا فیصلہ 2012ء میں بیرون عدالت تصفیہ ہوا جس کے تحت متفقہ شرائط کے ذریعہ بینک کو قرضہ اور سود ادا ہوا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایشو اس لیے پیدا کیا گیا کیونکہ اس وقت کی حکومت جنگ جیو کی ایڈیٹوریل پالیسی سے ناخوش تھی اور اس نے معمول کی بینکنگ سہولت کو ، جسے بزنس کمیونٹی کی جانب سے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، میڈیا گروپ کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال کیا۔ حکومت کی جانب سے ایک اور الزام بیرونی فنڈنگ کا ہے جس کے تحت من گھڑت الزامات کے ذریعہ نئے مقدمات قائم کرنے کی کوشش ہے۔
تفصیلات جیو کی ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وائس آف امریکا کو دیئے گئے ایک گھنٹہ ائیر ٹائم سے حاصل رقم جیو کے ریونیو کا ایک فیصدہے۔ اس بات کے ذکر کی ضرورت نہیں کہ ایکسپریس، آج اور ہم ٹی وی کو بھی وائس آف امریکا کا ائیر ٹائم ملا، ان میں سے کسی پر بھی اس ضمن میں الزامات عائد نہیں ہوئے۔
سالانہ حسابات ایس ای سی پی میں داخل کرنے کا جہاں تک تعلق ہے، جس کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں ایس ای سی پی کی جانب سے کوئی کیس دائر نہیں ہے۔ یہ بات ریکارڈ کے لیے ہے کہ کسی میڈیا کمپنی نے اپنے آڈٹ شدہ حسابات ایس ای سی پی میں داخل نہیں کیے اور ایس ای سی پی سے منسلک 5 فیصد سے بھی کم کمپنیوں نے حسابات داخل کیے ہیں۔
اگر نان فائلنگ پر کوئی کارروائی مطلوبہ ہو تب بھی کسی ایک میڈیا گروپ کو نشانہ بنانے کے بجائے سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ جب سپریم کورٹ میں حامد میر اور ابصار عالم کی پٹیشن پر میڈیا کمیشن قائم کیا گیا۔
جنگ /جیو نے رضاکارانہ طور پر نہ صرف اپنے مالک کے بلکہ اینکرز اور صحافیوں کے بھی اثاثے ظاہر کیے جو میڈیا انڈسٹری میں سب پر لازم تھا۔
جیو کی استدعا تھی ’’کمیشن کو ہدایت کی جائے کہ اگر سپریم کورٹ میڈیا کی آزادی کا تحفظ چاہتاہے تو اسے میڈیامالکان، اینکرز اور رپورٹرز کے اثاثے ظاہر کرنے کابھی اختیار ملنا چاہئے۔
اگرعدالت عظمیٰ اسے بہترین مفاد میں سمجھتی ہے تو ہم بخوشی اپنے اثاثے ظاہر کردیں گے۔ یہ ہماری میڈیا کمپنی کے لیے پالیسی بنا کر دیگر کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اے آر وائی نے پہلے ہی جنگ / جیو میڈیا گروپ کے ایڈیٹر ان چیف پر غدار اور ملک دشمن ہونے کا جھوٹا الزام عائدکیا۔ قوم کو دھوکہ دے کر پاکستان کے مخالف دیگر ممالک کے ساتھ سازش کی۔ اے آر وائی یہ عائد الزامات عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام رہا اور اعتراف کیا کہ اس کے پاس اپنے دعوؤں کے حق میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
آف کام اور برطانوی عدالت کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ جنگ/جیو گروپ اور ایڈیٹر اِن چیف میر شکیل الرحمٰن نے بے بنیاد الزامات کے ذریعہ بددیانت میڈیا مہم کو شکست دی۔
ہتک عزت کیس میں لندن ہائیکورٹ کا فیصلہ جنگ/جیو گروپ اور ایڈیٹر اِن چیف کی تاریخی فتح ہے۔ عدالت نے اے آر وائی کو 30 لاکھ پائونڈ اسٹرلنگ ہرجانہ اور مقدمے کی لاگت ادا کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 12 مارچ کو 34 برس قبل مبینہ طور پر حکومتی عہدے دار سے غیرقانونی طور پر جائیداد خریدنے کے کیس میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو حراست میں لیا۔
ترجمان جنگ گروپ کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔
ترجمان جنگ گروپ کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمان نے یہ پراپرٹی پرائیوٹ افراد سے خریدی تھی، میر شکیل الرحمان اس کیس کے سلسلے میں دو بار خود نیب لاہور کے دفتر میں پیش ہوئے، دوسری پیشی پر میر شکیل الرحمان کو جواب دینے کے باوجود گرفتار کر لیا گیا، نیب نجی پراپرٹی معاملے میں ایک شخص کو کیسےگرفتار کر سکتا ہے؟ میر شکیل الرحمان کوجھوٹے، من گھڑت کیس میں گرفتارکیاگیا، قانونی طریقے سے سب بےنقاب کریں گے۔
جنگ گروپ کیخلاف تمام الزامات چاہے وہ 34 سال پرانے ہوں یا تازہ، سب قانونِ عدالت کے سامنے چاہے وہ برطانیہ کی ہو یا پاکستان کی، جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔
جنگ گروپ پر بیرونِ ممالک سے فنڈز لینے، سیاسی سرپرستوں سے فنڈز لینے، غداری، توہین مذہب اور ٹیکس وغیرہ سے متعلق تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔
جنگ گروپ کے اخبارات، چینلز کو بند کیا گیا، رپورٹرز، ایڈیٹرز اور اینکرز کو مارا گیا، قتل کیا گیا، پابندی عائد کی گئی، بائیکاٹ کیا گیا لیکن ہم آج بھی عزم کے ساتھ کھڑے ہیں اور سچ کی تلاش کی ہماری کوشش جاری رہے گی۔
نیب کو شکایت کرنے والا شخص جعلی ڈگری بنانے والی کمپنی کیلئے کام کرتا ہے اور اس کمپنی کی ایک میڈیا کمپنی بھی ہے جوکہ بین الاقوامی طور پر بارہا بے نقابل ہوچکی ہیں۔
جنگ گروپ اس شکایت کنندہ کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ جیت چکا ہے اور یہ شخص متعدد دیگر فوجداری اور ہتک عزت کے کیسز میں قانونی چارہ جوئی بھگت رہا ہے۔ انشاء اللہ ہم ان تمام کیسز میں بھی سرخرو ہوں گے۔