25 مارچ ، 2020
از جراثیم پور
بیمار گھاٹی
محترمہ لیڈی کورونا!
جراثیمانہ ادب و آداب کے بعد عرض ہے کہ آج کل انسانی دنیا میں تمہارا بہت غلغلہ ہے اور تم کبھی جہازوں پر چڑھ کر اٹلی اور یورپ پہنچ جاتی ہو اور کبھی ایشیا کے ملکوں میں چلی جاتی ہو۔ یہ خط میں تمہیں اس لئے لکھ رہی ہوں کہ تمہیں آنے والے خطرے سے آگاہ کر سکوں کیونکہ فی الحال انسان تم سے ڈر رہے ہیں تمہارا شکار ہو کر مر رہے ہیں تم جہاں جاتی ہو تباہی لے آتی ہو۔
کبھی میرا یعنی ملیریا بائی کا بھی یہی حال تھا میں نے سکندر اعظم کی دنیا فتح کرنے والی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے مگر یہ حضرت انسان جراثیموں، کیڑوں مکوڑوں اور وائرسوں سے کہیں زیادہ تیز ہے بس تھوڑا انتظار کرو اس نے تمہارا توڑ ڈھونڈ لینا ہے جیسے اس نے میرے لئے کونین ڈھونڈ کر میرا ڈنگ نکال دیا ایسے ہی جس دن اس کے سائنس دانوں نے کامیابی حاصل کر لی تو لیڈی کورونا تمہارا بستر گول ہونا شروع ہو جائے گا۔
میں، ملیریا بائی پرانے زمانے کی چیز ہو گئی ہوں لیکن ایک زمانے میں میری بھی تمہارے جیسی شان تھی آج تم حکمرانوں، وزیروں اور بڑے بڑے لوگوں کو ڈھا رہی ہو، ایک دور میں ہر کوئی مجھ سے ڈرتا تھا۔
یہ جو ہومیو سیپئنز یعنی حضرت انسان ہے اس کے خلاف کئی بکٹیریا، کئی جرثومے، کئی وائرس، کئی خرد، کئی کیڑے اور کئی بیماریاں آئیں مگر یہ کوئی ایسی سخت چیز ہے کہ یہ ختم نہیں ہوتا حملہ آور کو یا تو ختم کر دیتا ہے یا اتنا کمزور کر دیتا ہے کل مجھے دارلحشرات لائبریری جانے کا موقع ملا تاریخ کے اوراق کھولے تو پتہ چلا کہ یہ حضرت انسان کبھی طاعون، کبھی چیچک، ہیضے، دمے اور قولنج کے جھٹکے سے ہی مر جاتے تھے۔
مغل اعظم اکبر بادشاہ کی موت پیچش سے ہوئی ،شاہ جہاں کی پیشاب اور متض کے مرض سے ہلاکت ہوئی، خسرہ و قولنج کے درد سے مرا فیضی کو دمے کی تکلیف تھی اسی سے جان ہار گیا۔
میں نے دنیائے ادب کی طرف نظر ڈالی تو آفتاب شعر و سخن غالب کو کئی بیماریوں میں مبتلا دیکھا آخری عمر میں وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے۔ انہیں سنتا بھی نہیں تھا نظر بھی کمزور تھی مگر انہوں نے آخری سانس تک حوصلہ نہیں ہارا۔
50ہزار پہلے سے جب سے انسان کی یہ نئی نسل ہومیو سپینز (Homeo Sapiens) وجود میں آئی ہے نوح ہراری کے مطابق اس نسل نے دیگر 6انسانی نسلوں کو شکست دی اسی نسل نے شیر سے لومڑی تک اور کیڑے سے لے کر جرثومے تک ہر ایک کو مسخر کیا ہے اسے نئے نئے خطرات اور چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے لیکن اب تک یہ کامیاب ہوتا آیا ہے۔
لیڈی کورونا جی!
مجھے پتا چلا ہے کہ تم پاکستان میں بھی وارد ہو گئی ہو میں تمہیں خبردار کرنا چاہتی ہوں کہ یہاں تمہیں مزاحمت تو شاید زیادہ نہ ملے مگر بددعائیں بہت ملیں گی یہاں ہر گھر اور ہر زبان سے تم پر لعنت بھیجی جائے گی ہو سکتا ہے جوش انتقام میں آ کر یہ تمہارے خلاف اکٹھے ہو کر جلوس بھی نکالیں اور تمہیں زیادہ پھلنے اور پھلانے کا موقع بھی دیں مگر یاد رکھنا اُن لوگوں کی بددعائیں بہت اثر کرتی ہیں یہ بھی ڈر ہے کہ تمہیں یورپ چین اور امریکا میں تو دوائیوں اور ویکسین سے مارا جائے گا یہاں جادو کے دو بول پڑھ کر ہی تمہیں ٹھکانے لگا دیا جائے اس لئے بہت احتیاط کرنا پہاڑوں سے دور رہنا کیونکہ وہاں کے پراسرار عمل سے حکومتیں بدل جاتی ہیں کورونا کیا چیز ہے وہاں کورونا جیسی کئی چیزیں دم توڑ چکی ہیں اس لئے احتیاط بہت زیادہ احتیاط۔
دل کی بات بتا دوں یہاں حکومت، عوام مریض اور ڈاکٹر سب ایک صفحے پر آ چکے ہیں صحت کے معاملے کی زمام اقتدار مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے پاس ہے سنا ہے کہ ان کا نشانہ بہت تیز ہے اور وہ جونہی کورونا کو دیکھتے ہیں سیدھا اس پر فائر کر دیتے ہیں ابھی تک وہ کئی کورونا جراثیم کو ہلاک کر چکے ہیں تمہیں خاص کر ان سے بچنا چاہئے اگر تم سے چوک ہو گئی تو ڈاکٹر مرزا تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔
لیڈی کورونا!
تم نے سندھ میں تباہی مچانے کی کوشش کی مگر وہاں ڈاکٹر مراد بزدل نکلا سارا سندھ بند کر کے تم سے بہت حد تک بچ گیا، پنجاب میں قابل وزیراعلیٰ ہے اس لئے یہاں تمہاری دال گلنے والی نہیں۔
یہاں کا حاکم ڈاکٹروں سے زیادہ ڈاکٹر، بیورو کریٹوں سے زیادہ عقلمند اور سیاستدانوں سے زیادہ ہوشیار ہے تم بے شک 7کلب روڈ کا چکر لگا لینا تمہیں ہر جگہ لوگ مقابلے کے لئے تیار نظر آئیں گے۔ کورونا میں تمہیں سمجھائے دیتی ہوں کہیں پنجاب میں کسی سے متھا نہ لگا لینا یہ بڑے سنگ دل ہیں۔ یہ خود تو مریں گے تمہاری اولاد اور آئندہ نسلوں کے لئے بھی ایسا انتظام کر جائیں گے کہ ان پر لعنت برستی رہی۔ خاص کر موجودہ حاکم پنجاب کے دور میں بہت احتیاط کرنا یہ پہلے ہی خطرے کی زد میں ہیں تم نے جگہ بنا لی تو خطرہ گیارہ ہزار وولٹ تک چلا جائے گا۔
کورونا ڈائن!
آخر میں تم سے التماس ہے کہ پاکستان کی جان چھوڑو یہاں پہلے ہی بہت مسائل ہیں اوپر سے تم آگئی ہو، یہاں کے لوگ تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں مرے کو کیا مارنا....
تمہاری اپنی ملیریا بائی
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔