24 مارچ ، 2020
کورونا دور میں پاکستانی سیاست ٹھنڈی رہے گی۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ عمران حکومت ہی بجٹ کا اعلان کرے تاکہ عام آدمی کو احساس ہو کہ ملک ابھی تک معاشی مشکلات میں گرفتار ہے اور آنے والے دنوں میں یہ مشکلات مزید بڑھ سکتی ہیں۔ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں غیرمعمولی اور ہنگامی حالت پیدا کر دی ہے۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک جہاں صحت اور ٹیکنالوجی کا معاملہ کمزور ہو وہاں اگر وبا پوری طاقت سے آ گئی تو حالات کا سنبھالنا مشکل ہو گا۔ اس ہنگامی صورتحال سے پہلے سیاست میں اختلافی مسائل کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کا اکٹھے بیٹھنا محال نظر آتا تھا مگر کورونا کے خطرے کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت شروع سے ہی اس حوالے سے خوش قسمت رہی ہے کہ حکومت اور ادارے ایک صفحے پر رہے ہیں بلکہ ادارے ملک کو چلانے میں شانہ بشانہ مدد کرتے نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ اپوزیشن بھی ریاستی معاملات میں اداروں کے ساتھ تعاون کیلئے تیار نظر آتی ہے۔ بلاول بھٹو نے لاہور قیام کے دوران بتایا کہ ادارے اہم قومی ایشوز پر انہیں بریف کرتے ہیں اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے اکابرین چاہے وہ شہباز شریف ہوں یا خواجہ آصف، دونوں ریاستی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں، حکمت کاری (Strategy)کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن اور ادارے مختلف ایشوز پر انگیج (Engage)رہتے ہیں۔
ملک کیلئے یہی بہترین حکمتِ عملی ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور ریاستی ادارے اہم ایشوز اور بحرانوں کے حوالے سے ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہیں، صلاح مشورہ کریں، ایک دوسرے کو Engageکریں تاکہ کوئی ملک دشمن محبِ وطن قوتوں میں دراڑ نہ ڈال سکے۔ بدقسمتی یہ رہی ہے کہ جب بھی اپوزیشن اور ادارے ماضی میں انگیج ہوئے ہیں حکومت کو شک پڑ جاتا ہے کہ اب کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا حالانکہ دنیا بھر میں ادارے پوری قوم یعنی حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔
شہباز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے میری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ یہ کسی ڈیل یا پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ ان کی واپسی انگیج پالیسی کا حصہ ہے۔
نواز شریف بیرونِ ملک علاج کیلئے گئے تو افواہ یہ تھی کہ ضرور کوئی ڈیل ہوئی ہے، نواز شریف کو بھیجنے کے پیچھے ضرور کوئی سازش کارفرما ہے، یہ بات یہاں تک بڑھی کہ بعض وفاقی وزرا تک کو باقاعدہ طور پر سمجھایا گیا کہ ڈیل کا مطلب کچھ لو اور کچھ دو ہوتا ہے ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔ ہاں البتہ ملکی ادارے ہر سیاسی ادارے اور اہم شخصیت کو ملکی معاملات پر انگیج رکھنا چاہتے ہیں تاکہ بیگانگی (Alienation)پیدا نہ ہو اسی لیے ایسے رابطے مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔
شہباز شریف کی وطن واپسی کے حوالے سے میری عاجزانہ رائے یہی ہے کہ یہ کسی ڈیل یا پالیسی کا حصہ نہیں بلکہ ان کی واپسی انگیج پالیسی کا حصہ ہے۔ وہ پہلے بھی اداروں سے رابطے میں تھے، اب وہ اس بحرانی دور میں اداروں اور حکومت دونوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔
ماضی قریب میں جب شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کو علاج کیلئے بیرونِ ملک لیکر گئے تھے تو اس وقت ان کی مصالحتی پالیسی کی کامیابی کا ڈنکا بجا تھا مگر ان کی لندن موجودگی کے دوران اس پالیسی کا جادو کمزور پڑ گیا اور پھر جب مریم نواز کے بیرونِ ملک جانے کے حوالے سے وزیراعظم خان نے سخت موقف اختیار کر لیا تو (ن)لیگ اور مریم نواز کا جھکاؤ پھر سے مزاحمتی پالیسی کی طرف ہو گیا، یہی وجہ تھی کہ مریم نواز نے دورہ اسلام آباد کے موقع پر کہا کہ ان کا بیانیہ دو فقروں پر مشتمل ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور وزیراعظم نواز شریف۔
اس بیانیے کے بعد اُن کا وطن آنا ضروری ہو گیا تاکہ (ن)لیگ کے اندر مزاحمتی اور مفاہمتی بیانیوں کے درمیان تال میل پیدا کریں اور اسے ایک موثر سیاسی جماعت کے طور پر چلائیں۔
تحریک انصاف کیلئے کورونا اور معاشی بہتری دو بڑے چیلنج ہیں
سچ تو یہ ہے کہ بجٹ تک کوئی سیاسی تبدیلی نہیں آ رہی، نہ ہی اس بارے میں کہیں بھی سوچا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کیلئے کورونا اور معاشی بہتری دو بڑے چیلنج ہیں، بجٹ میں وہ ان دونوں سے کیسے نمٹتے ہیں اس کے بعد ہی سیاسی صورتحال واضح ہو سکے گی۔ اگر تو حکومت ان چیلنجز سے نمٹنے میں ناکام ہو گئی تو اس کا برقرار رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔
پنجاب میں آج بھی یہ صورتحال ہو چکی ہے کہ اگر تحریک انصاف نے کوئی بہتری نہ کی تو اگلا الیکشن (ن)لیگ کی جھولی میں چلا جائے گا اور تحریک انصاف دیکھتی رہ جائے گی۔ دوسری طرف کورونا اور معاشی بحران جہاں تحریک انصاف کیلئے مشکلات لا رہے ہیں وہیں وہ ان کیلئے نئے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ بڑے لیڈر ہمیشہ بحرانوں کے اندر ہی سے مواقع ڈھونڈ کر عظیم تر بن جاتے ہیں۔
وزیراعظم کیلئے بھی مواقع قطار اندر قطار موجود ہیں وہ ان سے فائدہ اٹھا کر بحران سے کامیاب نکل آئیں تو ہر طرف ان کا ڈنکا بج جائے گا اور اگر یہ مواقع ضائع ہو گئے اور بحران بڑھتا گیا تو پھر تحریک انصاف کے سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
وزیراعظم خان کو اس وقت پورے ملک کی حمایت حاصل ہے، اپوزیشن مخالفتیں بھول کر حکومت کے ساتھ کھڑی ہے، بلاول بھٹو نے پہل کی اور بحران میں سب سے آگے بڑھ کر سیاست روکنے اور کورونا سے مل کر لڑنے کا عندیہ دیا۔ (ن)لیگ کا بھی یہی مؤقف ہے، ملکی ادارے بھی اس حوالے سے پوری طرح تیار ہیں۔
وزیراعظم کیلئے یہ تین ماہ امتحان بھی ہیں مگر ان کیلئے یہ مستقبل کی سیڑھی بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم اپوزیشن کو ساتھ بٹھاتے ہیں یا نہیں، آزاد میڈیا کو برداشت کرتے ہیں یا نہیں اور معقول تجویز سن کر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر تو ان کے طرزِ عمل میں تبدیلی آئی تو یہ بحران پاکستان کو تبدیل کر سکتا ہے اگر ماضی کی طرح کا چلن رہا تو پھر تبدیلی حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔