25 مارچ ، 2020
لاہور کی احتساب عدالت نے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں 7 اپریل تک مزید توسیع کردی۔
میر شکیل الرحمان کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت احتساب عدالت کے ڈیوٹی جج جواد الحسن نے کی۔
دوران سماعت میرشکیل الرحمان کے وکیل نے استدعا کی کہ اپنے مؤکل سے مشاورت کرنے کے لیے کچھ وقت فراہم کیا جائے ، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو مشاورت کرنےکا حق حاصل ہے۔
عدالت نے میر شکیل الرحمان اوران کے وکیل کو آپس میں مشاورت کی مہلت فراہم کرنے کی استدعا منظورکرتے ہوئے سماعت کچھ دیرکےلیےملتوی کر دی۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر نے الزام عائد کیا کہ میر شکیل الرحمان کو جو زمین فراہم کی گئی وہ غیرقانونی طورپر ٹرانسفر کی گئی، ایل ڈی اے نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کے حکم پر زمین دی۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت ایل ڈی اے سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے بیک وقت زمین میر شکیل الرحمان کے نام کرنے کا حکم دیا، ایل ڈی اے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں ان کا خیال نہیں رکھا گیا۔
پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ میرشکیل الرحمان کو زمین تین مختلف جگہوں پر الاٹ کی گئی، میر شکیل الرحمان نے غیرقانونی طورپر یہ زمین ایک جگہ پرالاٹ کروائی۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کے مطابق دلائل دیں سیاسی باتیں نہ کریں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے کو بلوایا تھا، سابق ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ انہیں تمام ریکارڈ فراہم کر دیں، وہ تمام ریکارڈ دیکھ کرتفصیلی جواب دیں گے۔
نیب کے تفتیشی افسر نے میر شکیل الرحمان کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی جس پر میر شکیل الرحمان کے وکیل نے کہا کہ مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔
امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع نہ دی جائے، ایسا کونسا قتل کا کیس ہے جس میں آلہ قتل برآمد کرنا ہے۔
عدالت نے نیب افسر سے پوچھا کہ پٹواری نے ایل ڈی اے کو قبضہ کب دیا؟ پہلے ایل ڈی اے کو قبضہ ملے گا تب ہی ایل ڈی اے آگے زمین منتقل کرے گا۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کو جسمانی ریمانڈ اب کیوں چاہیے؟ جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے اور میرشکیل الرحمان کے ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے۔
عدالت نے نیب کے تفتیشی افسر سے کہا کہ ریکارڈ دکھائیں اور بتائیں کب ایل ڈی اے کو قبضہ کب ملا۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اس اراضی کے کتنے مالک ہیں؟ جس پر نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس اراضی کا ایک ہی مالک ہے۔
میر شکیل الرحمان کے وکیل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس اراضی کے 7 افراد مالک ہیں، اگر اراضی کا ایک ہی مالک ہوا تو میں عدالت سے باہر چلاجاؤں گا۔
میر شکیل کے وکیل امجد پرویز بٹ نے کہا کہ نیب کا الزام ہی درست نہیں ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ پھر تو کیس کی نوعیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔
میر شکیل الرحمان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا کیس سامنے آیا ہے، چیئرمین نیب نے ذاتی طور پر میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں۔
وکیل نے مزید کہا کہ میر شکیل الرحمان تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کرچکے ہیں، میر شکیل الرحمان کو جب بھی نیب نے بلوایا وہ پیش ہوئے لیکن نیب نے قانون سے آگے جا کر کارروائی کی۔
جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف کے وکیل نے اپنے دلائل میں سوال کیا کہ تفتیش کے دوران گرفتاری کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ یہ واحد کیس ہے جس میں چیئرمین نیب کو اتنی جلدی تھی۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری بادی النظرمیں غیرقانونی تھی، برصغیر کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انکوائری پر گرفتار کر لیا جائے۔
احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا جو کچھ دیر بعد سناتے ہوئے جسمانی ریمانڈ میں مزید 7 اپریل تک توسیع کردی۔
واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 12 مارچ کو 34 برس قبل مبینہ طور پر حکومتی عہدے دار سے غیرقانونی طور پر جائیداد خریدنے کے کیس میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو حراست میں لیا۔
ترجمان جنگ گروپ کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کی دستاویز بھی شامل ہیں۔
ترجمان جنگ گروپ کا کہنا ہے کہ میر شکیل الرحمان نے یہ پراپرٹی پرائیوٹ افراد سے خریدی تھی، میر شکیل الرحمان اس کیس کے سلسلے میں دو بار خود نیب لاہور کے دفتر میں پیش ہوئے، دوسری پیشی پر میر شکیل الرحمان کو جواب دینے کے باوجود گرفتار کر لیا گیا، نیب نجی پراپرٹی معاملے میں ایک شخص کو کیسےگرفتار کر سکتا ہے؟ میر شکیل الرحمان کوجھوٹے، من گھڑت کیس میں گرفتارکیاگیا، قانونی طریقے سے سب بےنقاب کریں گے۔
جنگ گروپ کیخلاف تمام الزامات چاہے وہ 34 سال پرانے ہوں یا تازہ، سب قانونِ عدالت کے سامنے چاہے وہ برطانیہ کی ہو یا پاکستان کی، جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔
جنگ گروپ پر بیرونِ ممالک سے فنڈز لینے، سیاسی سرپرستوں سے فنڈز لینے، غداری، توہین مذہب اور ٹیکس وغیرہ سے متعلق تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔
جنگ گروپ کے اخبارات، چینلز کو بند کیا گیا، رپورٹرز، ایڈیٹرز اور اینکرز کو مارا گیا، قتل کیا گیا، پابندی عائد کی گئی، بائیکاٹ کیا گیا لیکن ہم آج بھی عزم کے ساتھ کھڑے ہیں اور سچ کی تلاش کی ہماری کوشش جاری رہے گی۔
نیب کو شکایت کرنے والا شخص جعلی ڈگری بنانے والی کمپنی کیلئے کام کرتا ہے اور اس کمپنی کی ایک میڈیا کمپنی بھی ہے جوکہ بین الاقوامی طور پر بارہا بے نقابل ہوچکی ہیں۔
جنگ گروپ اس شکایت کنندہ کیخلاف ہتک عزت کا دعویٰ جیت چکا ہے اور یہ شخص متعدد دیگر فوجداری اور ہتک عزت کے کیسز میں قانونی چارہ جوئی بھگت رہا ہے۔ انشاء اللہ ہم ان تمام کیسز میں بھی سرخرو ہوں گے۔