میر شکیل الرحمٰن۔ نڈر اور بہادر انسان

فوٹو فائل—

گزشتہ دنوں جنگ و جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو 34برس قبل اراضی کے خود ساختہ کیس میں نیب نے گرفتار کر لیا جبکہ نیب کے بلانے پر وہ دو دفعہ پیش ہوئے، حالانکہ اگر وہ چاہتے تو کئی دیگر سیاسی اور کاروباری افراد کی طرح میڈیکل گراؤنڈ پر پیش نہ ہوتے جس طرح عموماً ہمارے ہاں کئی سیاسی شخصیات اور کاروباری لوگ کی روایت ہے۔

نیب کے سامنے دونوں مرتبہ پیش ہوکر اپنا مؤقف بیان کرنا اس بات کی مضبوط ترین دلیل ہے کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔

مجھے ادارہ جنگ میں چالیس برس ہوگئے۔ میرا ملازمت کے سلسلے میں پہلا انٹرویو جناب میر خلیل الرحمٰن مرحوم نے جبکہ دوسرا انٹرویو جناب میر شکیل الرحمٰن نے کیا اور فوری طور پر کام کرنے کا کہا۔ جنگ فورم (مذاکرہ) کا پہلا خاکہ بھی انہوں نے میرے ساتھ ڈسکس کیا اور جنگ کا پہلا فورم کرانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہوا، اس فورم میں جناب میر شکیل الرحمٰن خود ایک تجزیہ کار کے طور پر شریک ہوئے اور سوالات بھی دیتے رہے۔ اس کے بعد ایجوکیشن اور میڈیکل کے تین سو فورم میں نے کرائے جن میں اکثر فورم میں وہ خود شریک ہوتے اور اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے اور موضوعات بھی دیتے۔

ماضی میں کئی حکومتوں نے ادارہ جنگ کو حق، سچ لکھنے پر نشانہ بنایا، اخبار پر بڑی سختیاں کی گئیں مگر میر شکیل الرحمٰن ایک نڈر سپاہی کی طرح ڈٹے رہے۔ ایک واقعہ بیان کرتا ہوں، کئی برس پرانی بات ہے، میر شکیل الرحمٰن نہر پر جا رہے تھے، راستے میں ایل ڈی اے کے ٹرک نے ایک سائیکل سوار کو ٹکر مار دی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔ میر صاحب نے اس کو اپنی گاڑی میں میو اسپتال پہنچایا اور مجھے فون کیا۔

اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے۔ مجھ سے کہا کہ آپ میو اسپتال جائیں، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرام سے بات کریں اور پوچھیں کہ اس زخمی کا بہتر علاج کہاں ہو سکتا ہے تاکہ اس کی جان بچ جائے۔ ڈاکٹر جاوید اکرام نے ہمیں کہا کہ اگر اس کو کسی پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرا دیں تو اس کی جان بچ سکتی ہے۔ سرکاری اسپتال کے حالات ایسے نہیں کہ اس کی جان بچائی جا سکے۔

ہم نے اس زخمی کے علاج کا پورا خرچ پوچھا تو انہوں نے دو لاکھ روپے کے قریب بتایا، میں نے میر صاحب کو اخراجات بتائے۔ انہوں نے فوراً اس زخمی کے علاج کے لئے ایڈوانس دو لاکھ روپے بھجوا دیے۔ میں نے جاکر وہ رقم کلینک میں جمع کرا دی اور اس زخمی کو وہاں داخل کرا دیا۔ سوچیں اس زمانے کے دو لاکھ آج کے کئی لاکھ کے برابر ہیں۔

میں جب بھی اس کی خیریت پوچھنے جاتا وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر میر شکیل الرحمٰن کو دعائیں دیتا۔ آج میر شکیل الرحمٰن کو جھوٹے اور بےبنیاد مقدمات میں صرف اس وجہ سے پھنسایا جا رہا ہے کہ انہوں نے حق و صداقت کا ہمیشہ ساتھ دیا اور ان کے زیر سایہ جو صحافی کام کرتے ہیں ان کی تربیت بھی اسی انداز میں کی گئی ہے۔

اس سے قبل بڑے میر صاحب (جناب میر خلیل الرحمٰن مرحوم) بھی سچ لکھنے پر جیل میں رہے تھے۔ ماضی میں جن صحافیوں نے اپنے نظریات اور قومی مفادات کے حوالے سے کوئی سودے بازی نہ کی، پابند سلاسل رہے۔ ان میں مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، میر خلیل الرحمٰن، آغاز شورش کاشمیری کے نام تاریخ کے صحافت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور اب میر شکیل الرحمن کا نام بھی انہی نڈر اور جرأت مند صحافیوں میں شامل ہو چکا ہے جو سچائی کے لئے لڑتے رہے اور حق اور صدا قت کا علم بلند رکھا۔

میر شکیل الرحمٰن نیب کی جیل میں جانے کے باوجود آج بھی اپنے ادارے کے کارکنوں کیلئے پریشان ہیں۔ چند روز قبل جب ان کے اہل خانہ ان سے ملاقات کیلئے گئے تو انہوں نے سب سے پہلی بات ہی یہ کی کہ وہ اپنے ادارے کے صحافیوں اور کارکنوں کے لیے پریشان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد ان کے واجبات ادا کر دیے جائیں۔ اور ان کے ادارے کے صحافیوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

اب حکومت کو بھی چاہیے کہ ان کے ادارے کے جو واجبات حکومت کے ذمہ ہیں، وہ فوری ادا کر دیے جائیں۔

عزیز قارئین! میر شکیل الرحمٰن کی اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کو اپنے ادارے کے صحافیوں سے کس قدر پیار ہے۔ صحافت کی تاریخ میں میر شکیل الرحمٰن نے جس جدت اور نئی روایات کو جنم دیا، وہ کسی اور اخبار کا مالک اور صحافی نہ کر سکا۔ کئی لوگوں نے اخبارات اور ٹی وی چینل شروع کیے مگر وہ صحافی نہیں بلکہ روایتی سیٹھ ہیں مگر میر شکیل الرحمٰن کی سوچ نظریات ان روایتی سیٹھ مالکان سے ہمیشہ مختلف رہی، یہی وجہ ہے کہ اس ادارے نے ترقی کی منازل بہت تیزی سے طے کیں۔

جیو کے سنیئر اینکر پرسن سہیل ورائچ نے بالکل درست کہا کہ میر صاحب نے اپنے ادارے کے لوگوں کو جتنا پیار اور عزت دی ہے، وہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔ لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن جیسا پروفیشنل اور صحافت کو سمجھنے والا میں نے آج تک کوئی نہیں دیکھا۔

جو لوگ بھی جنگ جیو چھوڑ کر کہیں اور جاتے ہیں وہ واپس پھر اسی ادارے میں آتے ہیں کیونکہ میر شکیل الرحمٰن جیسا پروفیشنل انسان اور کوئی نہیں ہے، وہ پروفیشنلزم کو سمجھتے ہیں۔

آج اگر ادارے میں موجودہ حکمرانوں کی وجہ سے بحران آیا ہے تو اس کے باوجود ادارے کا ہر کارکن میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ کھڑا ہے اور اس جنگ میں ان کے ساتھ ہے۔ میر شکیل الرحمٰن نے ہر حکومتی دبائو کو ماننے سے انکار کر دیا ہے اور یہی ان کا جرم ہے۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن اس جھوٹے کیس سے جلد بری ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔