26 مارچ ، 2020
لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔
میر شکیل الرحمٰن کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت جسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بینج نے کی۔
نیب حکام کی جانب سے میر شکیل الرحمٰن کو عدالت میں پیش کر کے ان کی حاضری لگوائی گئی جب کہ میر شکیل الرحمٰن کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہو ئی تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں احتساب عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کر دی ہے تو ایسے میں کیا رہ جاتا ہے؟
عدالت نے استفسار کیا کہ میر شکیل الرحمٰن کا ریمانڈ ختم کرنے کی درخواست کی پوزیشن کیا ہے؟
نیب پراسیکیوٹر فیصل بخاری نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کا ریمانڈ ختم کرنے کی درخواست کی سماعت بھی آج ہی ہونی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ہم ریمانڈ ختم کرنے کی درخواست کو بھی منگوا لیتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمان کا ریمانڈ ختم کرنے سے متعلق درخواست کے دستاویزات طلب کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو حکم دیا کہ درخواست کے ساتھ احتساب عدالت کا ریمانڈ آرڈر اور میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کی وجوہات منسلک کی جائیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے نیب کو میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف درخواست میں شق وار جواب جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔
خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ کو کالعدم قرار دینے کی درخواست بھی دائر ہے۔
میر شکیل الرحمٰن کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی درخواست میں چیئرمین نیب، ڈی جی نیب، احتساب عدالت کے جج اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا کہ نیب نے گرفتاری میں2019ء کی بزنس مین پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت کے جج نے جسمانی ریمانڈ کے تحریری حکم میں ریمانڈ کی وجوہات بیان نہیں کیں جب کہ ڈی جی نیب نے گرفتاری سے قبل چیئرمین نیب سے قانونی رائے نہیں لی۔
درخواست گزار نے عدالتِ عالیہ سے استدعا کی ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کی 12 مارچ کو گرفتاری کا اقدام نیب کے دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دے کر اسے کالعدم کیا جائے اور میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ کے حکم کو بھی غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔