Time 26 مارچ ، 2020
بلاگ

اعلیٰ عدلیہ سے امید!

جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے غیر قانونی طور پر ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کیا—فوٹو فائل

جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے غیر قانونی طور پر ایک جھوٹے مقدمہ میں گرفتار کیا۔ نیب نے اس گرفتاری میں نہ صرف اپنے وضع کردہ طریقہ کار کی کھلی خلاف ورزی کی بلکہ میر شکیل الرحمٰن کو ایک ایسی اسٹیج (جسے Complaint Verification Stage کہا جاتا ہے) جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی، پر گرفتارکر لیا۔

 یہ نیب قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ یہ گرفتاری چند ماہ قبل نیب قانون میں کی گئی ترامیم کی بھی ضد ہے کیونکہ اس ترمیم کے تحت ایک تو اب نیب پرائیویٹ کاروباری افراد کو نہیں پکڑ سکتا لیکن اگر کسی ایسی وجہ سے تحقیقات میں شامل کیا جائے جس کا تعلق حکومت یا حکومتی ادارے سے تعلق رکھنے والے کسی اہلکار کے اختیار کے غلط استعمال سے ہو تو اس لحاظ سے بھی اب ’’اختیارات کے غلط استعمال‘‘ کے نام پر نیب کسی سرکاری افسر، سیاستدان یا سویلین کے خلاف تحقیقات کرنے کا مجاز نہیں، کسی کو گرفتار کرنا تو دور کی بات ہے۔

قارئین کرام یاد رکھیں کہ جو میں نے کالم کی چند ابتدائی سطروں میں لکھا ہے یہی کچھ مستقبل میں اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے میر شکیل الرحمٰن کے حق میں لکھا جائے گا اور کہا جائے گا کہ نیب نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا جس کے خلاف اُس کے پاس کرپشن کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا۔ 

ایسا نہیں یہ پہلی بار ہو گا بلکہ یہ وہ تاریخ ہے جس سے سب واقف ہیں جس کی گواہی ایک نہیں کئی عدالتی فیصلے دے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود نیب بےقصور لوگوں کو پکڑنے سے نہیں رُکتا۔ اب کی بار نیب کی زیادتی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کھیل کو میر شکیل الرحمٰن کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ دو بار میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے بلایا، دونوں بار وہ نیب لاہور کے سامنے پیش ہوئے لیکن اُنہیں دوسری پیشی پر 12مارچ کو ایک جھوٹے کیس میں پکڑ لیا گیا۔ 

گزشتہ چند ماہ سے ہمیں اطلاعات مل رہی تھیں کہ میر صاحب کو حکومت گرفتار کرنا چاہ رہی ہے کیونکہ حکومت جنگ گروپ سے خوش نہیں لیکن کسی کو ایک فیصد بھی یقین نہ تھا کہ ایسے جھوٹے کیس میں نیب کو میر شکیل الرحمٰن صاحب کے خلاف استعمال کر کے اُنہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

اگر ذرہ برابر بھی شک ہوتا یا یہ محسوس ہوتا کہ کیس میں کوئی جان ہے تو ہائیکورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری بہ آسانی لے لی جاتی۔ بہرحال ایک جھوٹے کیس میں بڑے بھونڈے انداز میں میر صاحب کو نیب نے گرفتار کر لیا۔ احتساب عدالت کے سامنے پہلے 13مارچ اور دوبارہ 25مارچ کو میر صاحب کے وکلا کی طرف سے پورے کیس کا پول کھول کر رکھ دیا گیا لیکن دونوں بار احتساب عدالت نے نیب کو میر صاحب کا جسمانی ریمانڈ دیا اور اب اُنہیں 7اپریل کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

سب کو معلوم ہے کہ احتساب عدالتیں ہر کیس میں یہی کچھ کرتی ہیں اور اس مرحلے پر ان ٹرائل عدالتوں کی طرف سے ریمانڈ پر ریمانڈ دیا جاتا ہے چاہے ملزم کے ساتھ کتنی ہی ناانصافی کیوں نہ ہو رہی ہو اور بھلے نیب کا کیس کتنا ہی کھوکھلا اور جعلی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ المیہ ہے جس پر اعلیٰ عدلیہ کو نوٹس لے کر اُس خرابی کا تدارک کرنا چاہیے جس کی وجہ سے معصوم لوگوں کو مہینوں اور سالوں تک جیلوں میں رہنا پڑتا ہے۔ 

اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ایک نہیں، دو نہیں بلکہ درجنوں مقدمات میں نیب کی گرفتاریوں کو خلافِ قانون قرار دے کر ملزمان کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ لیکن اصل سوال عدالیہ سے یہ ہے کہ اگر کسی بےقصور اور معصوم کو ہفتوں، مہینوں بلکہ سالوں تک جیل میں رہنے کے بعد انصاف ملا تو اُس کا کیا فائدہ؟

بےقصور افراد کو نیب کے جعلی کیسوں کے نتیجے میں پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈالنے کا رواج ختم کیا جانا چاہیے۔ مقدمات ضرور چلتے رہیں، تحقیقات بھی بےشک ہوتی رہیں لیکن ضروت اس امر کی ہے کہ نیب کے گرفتاری کے اختیار کو ریگولیٹ کیا جائے اور ہر نیب گرفتاری پر سب سے پہلے عدالت گرفتاری کے میرٹ کو دیکھے تاکہ کسی بےقصور کو بلاوجہ جیل میں نہ رکھا جائے۔ 

مجھے امید ہے کہ میر صاحب کو ہائیکورٹس سے انصاف ضرور ملے گا اور ایک بار پھر نیب کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ تو پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ میں اس سے قبل بھی لکھ چکا کہ اب اعلیٰ عدلیہ کو چاہیے کہ اختیارات کے غلط استعمال، ناجائز گرفتاریوں اور جھوٹے مقدمات بنانے پر متعلقہ نیب افسران کو جرمانے کے ساتھ ساتھ جیل کی سزا بھی دے تاکہ کرپشن کے نام پر نیب کے اُس دھندے کو روکا جائے جس کی گواہی گزشتہ بیس سالوں کی نیب کی تاریخ دیتی ہے۔

جہاں تک وزیراعظم اور حکومت کی بات ہے تو میر صاحب کے معاملے پر گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں عمران خان صاحب سے کیے گئے سوال پر اُن کا ردعمل دیکھ کر یقین ہو گیا کہ اُن سے میر صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کسی خیر کی توقع رکھنا بیکار ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔