پاکستان
Time 04 اپریل ، 2020

چینی اور آٹا بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے جہانگیر ترین نے اٹھایا

گزشتہ دنوں ملک میں پیدا ہونے والے آٹے اور چینی کے بحران کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر آگئی۔ 

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق چینی بحران میں سیاسی خاندانوں نے خوب مال بنایا اور جہانگیر ترین اور خسروبختیار کے بھائی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی آٹا بحران کی اہم وجہ رہی۔

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پنجاب حکومت نے کس کے دباؤ میں آکر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی؟

اس حوالے سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ یقین ہے کوئی بھی صورت حال ہوعمران خان انصاف کریں گے۔

 3 ارب روپے میں سے ڈھائی ارب کی سبسڈی ن لیگ کے دورمیں دی گئی، جہانگیر ترین

اس حوالے سے  تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ 3 ارب روپے میں سے ڈھائی ارب کی سبسڈی ن لیگ کے دور میں دی گئی۔

جہانگیر خان ترین نے کہا ہے کہ جس وقت ن لیگ نے ڈھائی ارب کی سبسڈی دی اس وقت میں اپوزیشن میں تھا، میری کمپنیوں نے 12.28 فیصد چینی ایکسپورٹ کی، ایکسپورٹ پہلے آئیں، پہلے پائیں کی بنیاد پر کی گئیں۔

 دوسری جانب وفاقی وزیر خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے چینی سے متعلق فیصلوں کے اجلاس میں شرکت سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔

خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ انہوں نے اجلاس میں شرکت سے گریز ممکنہ مفادات کے ٹکراؤ کے پیش نظر کیا۔

خیال رہے کہ جہانگیر خان ترین تحریک انصاف کے اہم رہنما سمجھے جاتے ہیں جبکہ خسرو بختیار وفاقی کابینہ میں شامل ہیں اور ان کے پاس وزارت تحفظ خوراک اور تحقیق کا قلمدان ہے۔

خسروبختیار کے ایک بھائی مخدوم ہاشم جواں بخت پنجاب کابینہ میں شامل ہیں اور صوبائی وزیر خزانہ ہیں۔

واضح رہے کہ اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت کے رہنما پر بحران کی ذمہ داری کا الزام لگاچکی ہیں۔

ملک میں چینی و گندم کا بحران

جنوری اور فروری میں ملک بھر میں گندم کے بحران کے باعث آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بحران پر قابو پانے کے لیے 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ درآمد شدہ گندم آتے آتے مقامی سطح پر گندم کی فصل تیار ہوجائے گی اور پھر گندم کی زیادتی کی وجہ سے ایک نیا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی آٹے کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے گندم ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس حوالے سے وزیراعظم نے بحران کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی اور وزراء کو بحران کی وجوہات جاننے کا ٹاسک سونپا تھا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کو ملک میں جاری آٹا بحران سے متعلق رپورٹ بھجوادی گئی ہے جس کے مطابق آٹا بحران باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا جس میں افسران اور بعض سیاسی شخصیات بھی ملوث ہیں۔

آٹے کے ساتھ ملک میں چینی کا بحران بھی سر اٹھانے لگا تھا جس کے باعث وفاقی حکومت نے چینی کی برآمد پر فوری طور پر پابندی لگانے اور چینی کی درآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے چینی درآمد کرنے کی سمری (تجویز) مسترد کرتے ہوئے چینی برآمد کرنے پر بھی پابندی لگادی ہے۔

مزید خبریں :