لوگوں کی بات سنیں

فوٹو: فائل

پچھلا کالم اِس حوالے سے لکھا تھا کہ شاپنگ سنٹرز جلد بند ہو جایا کریں تاکہ لوگ جلد سونے کی عادت اپنا لیں اور صبح سویرے اُٹھ کر کام میں لگ جایا کریں۔ اِس تجویز کا ردِعمل بہت مثبت آیا، کئی پاکستانیوں نے اِس تجویز کو سراہا۔ سراہنے والوں میں زندگی کے تمام شعبوں کے افراد شامل ہیں۔

مثلاً مسلم لیگ قاف کی رکن قومی اسمبلی بیگم فرخ خان نے اس تجویز کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں ایک قرار داد پیش کریں گی جس میں اس بات پر زور دیا جائے گا کہ ملک بھر کے کاروباری طبقات کو پابند کیا جائے کہ وہ تمام شاپنگ مالز اور دکانیں شام چھ سات بجے بند کردیا کریں تاکہ ملک میں صحتمند سرگرمیوں کا آغاز ہو سکے اور ہمارا ملک توانائی کے بحران سے بھی نکل سکے۔ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز کا تو صاف صاف کہنا ہے ’’ہم دنیا سے انوکھے کیوں بنے ہوئے ہیں، ہمیں باقی دنیا کی طرح اپنے دن کا آغاز جلد کرنا چاہیے‘‘۔

حکومت کے سابق مشیر، پنجابی زبان اور کلچر کو آگے بڑھانے والے رہنما چوہدری ارشد اولکھ نے تجویز کیا ’’پاکستان میں گرمیوں کے موسم میں شام چھ بجے اور سردیوں کے موسم میں شام پانچ بجے کاروبار بند ہو جانا چاہیے اور اگر ایسا ہوگیا تو ملک راہِ راست پر آ جائے گا، فیکٹریوں کو بھی آبادیوں سے دور منتقل کرد ینا چاہیے‘‘۔

مجھے اس حوالے سے دو بڑے واقعات یاد آ رہے ہیں۔ آج سے بائیس برس پہلے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے مجھے تنگ کر رکھا تھا، میں نے سوچا کہ کس سے مشورہ لوں، پھر میں اسلام آباد میں اپنے شعبے کے سینئر اور تجریہ کار صحافی اثر چوہان کے پاس گیا۔

انہوں نے مشورہ بہت عمدہ دیا اور ایک بات اپنے متعلق بھی بتائی، کہنے لگے ’’میں صبح سویرے اٹھ جاتا ہوں پھر ہندی اخبارات پڑھ کر ریڈیو پاکستان کے لئے کچھ چیزیں تیار کردیتا ہوں، اس کے بعد کالم لکھتا ہوں، آپ لوگ جب دن گیارہ بجے کام کا آغاز کرتے ہیں، میں اپنا کام مکمل کر چکا ہوتا ہوں اور میرے پاس پورا دن بھی ہوتا ہے‘‘۔

دوسرا واقعہ مجھے سیدہ عابدہ حسین کے گھر پر کرکٹر ماجد خان نے سنایا، کہنے لگے ’’جب عمران خان ٹیم کا کپتان تھا تو یہ حکم تھا کہ سب لڑکے رات آٹھ بجے تک اپنے اپنے کمرے میں آجایا کریں۔

ہماری ٹیم ایک بیرونی دورے پر تھی، کوئی خاص مسئلہ درپیش تھا، مجھے میانداد اور کچھ اور ساتھیوں نے کہا کہ عمران خان آپ کا کزن ہے، آپ ہی اس وقت بات کر سکتے ہیں، میں نے رات کو ساڑھے آٹھ نو بجے عمران خان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا وہ ہڑبڑا کر اٹھا اور اس نے میری بات ہی نہ سنی بلکہ یہ کہا کہ ماجد آپ نے خلاف ورزی کی ہے آج چالیس سال ہو گئے ہیں، عمران خان مجھ سے بولا نہیں‘‘۔

میں نے ماجد خان سے پوچھا کہ عمران خان ایسا کیوں کرتے تھے؟ میرے اس سوال پر ماجد خان کہنے لگے کہ ’’عمران خان کا خیال تھا کہ جب پلیئرز وقت پر سوتے ہیں تو صبح گرائونڈ میں پرفارم اچھا کرتے ہیں اور اگر پلیئرز رات کو دیر سے سوئیں تو ان کی پرفارمنس بہت بری ہوتی ہے‘‘۔

خواتین و حضرات! آج ہم اسی عمران خان سے کہہ رہے ہیں کہ ملک و قوم کو راہِ راست پر لانے کے لئے شاپنگ سنٹرز کو شام چھ بجے تک بند کرنے کا مستقل فیصلہ کریں۔

نوجوان صحافی اور اینکر انیق ناجی اس سلسلے میں ایک اہم آغاز کر چکے ہیں۔ اس تجویز پر مجھے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بتایا کہ’’ میں 1960سے اس سنہرے اسلامی اصول پر عمل کر رہا ہوں، میں اس وقت 75برس کا ہوں مگر 55کا دکھائی دیتا ہوں، میری صحت کا راز اسی میں ہے‘‘

تحریک انصاف راولپنڈی کے صدر شہر یار ریاض نے تجویز کو سراہا اور بتایا کہ ’’پچھلی حکومت نے ایسا کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ انرجی کی بچت ہو سکے مگر تاجروں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ موجودہ حکومت اگر یہ فیصلہ کردے کہ شاپنگ سنٹرز شام چھ سات بجے بند ہو جایا کریں تو یہ ملک و ملت پر احسان ہوگا‘‘۔

عام طور پر معاشرے میں مشہور ہے کہ صحافی اور شاعر راتوں کو جاگتے ہیں مگر آپ کو حیرت ہوگی کہ شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے محبوب ظفر، ڈاکٹر اختر شمار، ابرار ندیم، ثروت روبینہ اور ثوبیہ نیازی سمیت کئی افراد نے تجویز سے اتفاق کیا۔

اسی طرح صحافتی دنیا سے واشنگٹن سے اسد حسن، تزئین اختر، میاں حبیب اللہ، اکرم شاہد، رانا تنویر قاسم، بریگیڈئر صولت رضا، امجد حسین، پرویز شہزاد، اپنے مراد خان، ریاض شاہد، ایم اے شام اور مسعودصدیقی سمیت کئی صحافیوں نے اس تجویز کو سراہا ہے۔

اساتذہ اور کاروباری شخصیات سمیت کئی افراد نے اس مسئلے کو اہم جانا، ڈیلس سے فرینڈز آف کشمیر کی چیئرپرسن غزالہ حبیب، نارتھ ٹیکساس کے کمیونٹی لیڈر سراج بٹ، مانچسٹر سے کاروباری شخصیت رانا احسان الحق، برطانیہ سے حسن رضا گوندل، دبئی سے ہاشمی بلوچ، یورپ سے ڈاکٹر زاہد خالد سدھو، جبکہ اندرونِ ملک سے بھی لمبی فہرست ہے مگر میں یہاں سماجی کارکن رزاق بھٹی اور حکیم اعجاز الحق مرزا کے علاوہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کے سابق پریس سیکرٹری سردار طاہر تبسم، پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہد، زبیر ملک، پروفیسر شاہد فاروق، کئی ریڈیو اسٹیشنز چلانے والے ظہیر احمد سمیت خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی مایہ ناز آل رائونڈر عالیہ ریاض کا تذکر ہ ضروری سمجھا ہوں۔

برطانیہ میں مقیم پروفیسر مسعود اختر کا کہنا ہے کہ ’’ہم 21سال سے لندن میں مقیم ہیں،موسم کوئی بھی ہو شام پانچ بجے ٹائون سنٹرز اور سٹی سنٹرز بند ہو جاتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست لاہور سے آئے رات نو بجے باہر نکلے تو سناٹا تھا، ہمارے لاہوری مہمان کہنے لگے کہ لاہور کی رونقیں رات نو بجے بحال ہوتی ہیں، یہاں تو ایسے لگ رہا ہے جیسے میں کسی قبرستان میں آگیا ہوں‘‘۔

بس یہی فرق ہے جسے ہم قبرستان سمجھتے رہے وہ ترقی کرگیا اور جسے ہم رونق میلہ سمجھتے رہے وہ کہیں پیچھے رہ گیا۔ محسن نقوی یاد آگئے کہ؎

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے

تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔