Time 09 مئی ، 2020
دنیا

کورونا وائرس کی دوا 'رمڈیسیویر' کی قیمت کیا ہوگی؟

فائل فوٹو

امریکی کمپنی گیلیڈ کو فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی جانب سے حال ہی میں کورونا وائرس کے علاج کے لیے منظور ہونے والی دوا 'رمڈیسیویر' کی قیمت طے کرنے کا ایک نیا چیلنج درپیش ہے۔

گیلیڈ نے چند سال قبل 2003 میں ہیپاٹائٹس سی کے علاج کی دوا 'سووالدی' بھی تیار کی تھی لیکن اس نے ایک گولی کی قیمت 1000 ڈالر (موجودہ ایک لاکھ 60 ہزار پاکستانی روپے) رکھی تھی جس کی وجہ سے اسے بدنامی اور شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ سووالدی دوا کے نتائج اس وقت ہیپاٹائٹس سی کے دستیاب دیگر علاج کی نسبت کافی بہتر تھے مگر انتہائی زیادہ قیمت کی وجہ سے اس وقت ایک نئی بحث شروع ہوئی تھی اور لوگوں سے مطالبہ کیا تھا کہ دواؤں کی مناسب قیمتیں رکھنے  کی پالیسی پر عمل ہونا چاہیے۔

لیکن اب دنیا بھر میں 40 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر اور 2 لاکھ 75 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں لینے والے موجودہ کورونا وائرس کی وجہ سے یہ بحث کافی حد تک پس پشت چلی گئی ہے کیونکہ یہ بات ضروری سمجھی جا رہی ہے دوا ساز کمپنیاں تحقیق کر کے اس عالمی وبا کی ویکسین تیار کریں۔

امریکی کمپنی گیلیڈ اب ایک مرتبہ پھر سے سب کی نظروں میں ہے کیونکہ اب تک کے نتائج کے مطابق اس کی اینٹی وائرل دوا 'رمڈیسیویر' کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کے علاج میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔

وال اسٹریٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گیلیڈ اگلے برس تک 'رمڈیسیویر' کی فروخت سے 75 کروڑ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ کما سکتی ہے جب کہ 2022 میں اس دوا کی فروخت سے ہونے والی آمدن ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہو گی۔

فارما سوٹیکل انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گیلیڈ اور دیگر کمپنیوں کو اس وبا کی وجہ سے پیدا ہونے والے صحت کے عالمی بحران کو منافع کے لیے استعمال کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔

برطانیہ کی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق کنسلٹنگ فرم زیڈ ایس ایسوسی ایٹس میں دواؤں کی قیمتوں کے ایک ماہر ایڈسکونولڈکا کہنا ہے کہ دوا ساز اداروں کے لیے یہ ایک بہت اچھا موقع ہے کہ وہ خود پر لگے بدنامی کے داغ دھوئیں اور اپنی شناخت بہتر کریں۔

گیلیڈ کا کہنا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے توسط سے ایک لاکھ 40 ہزار مریضوں کے لیے 'رمڈیسیویر' عطیہ کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایف ڈی اے کی منظوری کے بعد ترقی پذیر ممالک میں اس دوا کو پہنچانے کے لیے گیلیڈ پاکستان اور بھارت میں کچھ دوا ساز اداروں سے بات چیت بھی کر رہی ہے جہاں کم قیمت 'رمڈیسیویر ' تیار کی جائے گی۔

دوا کی ممکنہ قیمت

امریکا میں اکثر ایسی نئی ادوایات کی قیمت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔

دواؤں کے مرض پر اثر کی بنیاد پر قیمتوں کا اندازہ لگانے والے ادارے انسٹیٹیوٹ فار کلینکل اینڈ اکنامک ریویو (آئی سی ای آر) نے اس دوا کے کلینیکل ٹرائل کے ابتدائی نتائج کی بنیاد پر 10 دن کی دوا کے کورس کی زیادہ سے زیادہ قیمت 4500 ڈالرز ( یعنی 7 لاکھ 20 ہزار پاکستانی روپے ) تجویز کی ہے۔

صارفین کے حقوق کے ایک گروپ پبلک سٹیزن کا کہنا ہے کہ ایک دن کی دوا کی زیادہ سے زیادہ قیمت ایک ڈالر یعنی 160 روپے پاکستانی ہونی چاہیے کیونکہ یہ قیمت اس دوا کی تیاری پر آنے والی لاگت سے کہیں زیادہ ہے۔

وال اسٹریٹ کے کچھ سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ گیلیڈ اس دوا کی قیمت فی مریض 4000 ڈالر تک رکھ سکتی ہے جس سے اس کا اندازہ ہے کہ وہ ایک ارب ڈالر تک کما سکے گی۔

مزید خبریں :